میں نے دیوار میں اک در جو بنا رکھا ہے
راستہ تیرے لئے ہی وہ کُھلا رکھا ہے
آمد صبح ہے نکھرتی ہے فضائے گُلشن
دیکھ تو جان صبا گھر کو سجا رکھا ہے
آبلہ پائ نے جو حال سے بے حال کیا
پوچھا کس نے تھا بھلا حال یہ کیا رکھا ہے
تھی مقدر میں مرے دشت نوردی جاناں
تن پہ پیراہن خوں جب سے سجا رکھا ہے
خاک بالوں اٹی خشک ہوئ ہیں آنکھیں
تھا جو گُلشن وہ بدن صحرا بنا رکھا ہے
وقت کے ساتھ گزرتے ہوئے موسم بیتے
ایک موسم ہے جسے دل میں بسا رکھا ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں