ریگِ ہستی کا استعارہ بن
اے سمندر! کبھی کنارہ بن
"یومِ وارفتگی" منا اک دن
رقص کرتے ہوئے شرارہ بن
اپنی مرضی کی شکل دے خود کو
خود کو سارا مٹا، دوبارہ بن
سارے سازوں کو اک طرف رکھ دے
بس محبت کا ’’ایک تارا‘‘ بن
پھول بن کر دکھا زمانے کو
سنگِ مر مر نہ سنگِ خارا بن
ایک دھاگے سے باندھ لے خود کو
ہلکا پھلکا سا ہو، غبارا بن
بادلوں سے اتر، زمیں پر آ
آبِ استادہ! تیز دھارا بن
میری آنکھوں میں آ محبت سے
میرا دیکھا ہوا نظارہ بن
مجھ میں تعمیر کر مکاں اپنا
در، دریچہ، کگر، اسارا بن
اتنی خاموشیوں سے بہتر ہے
کوئی معنی بھرا اشارہ بن
صبح تک خوب جگمگا ناصرؔ
رات کا آخری ستارہ بن
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں