افراسیاب کامل |
گلاب دم بھی نہ لے اور غبار ہو جائے
میں اس گلاب کی سیرت میں ڈھل گیا خود بھی
جو میرے جسم سے لپٹے تو خار ہو جائے
نوائے بلبل و قمری ہو تیری سانسوں میں
نظر سے باغِ سحر ہمکنار ہو جائے
تمام عمر یہ قرضہ مجھے بھی یاد رہے
تمہارے جسم کا ریشم ادھار ہو جائے
نہ اور ظلم اٹھاو کہ ظلم کے پیچھے
چھپی نگاہ کو ہم سے نہ پیار ہو جائے
یہ میرےسحر کی طاقت ہے میرا دشمن بھی
خود اپنے وہم کا خود ہی شکار ہو جائے
کئی چراغ شگافوں سے منہ اٹھانے لگیں
جب اس نگہ سے ہوا تار تار ہو جائے