راجہ اسحقٰ |
اس کے وعدوں کا بھرم کھلنے پہ حیراں ہوا ہوں
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پریشاں ہوا ہوں
میرے ہونے کی گواہی تو اُسی نے دی تھی
اپنے دشمن سے میں نا حق ہی گریزاں ہوا ہوں
لے گیا کوئی محبت کا خریدار مجھے
تم نے دیکھا ہے میں کس شان سے ارزاں ہوا ہوں
چاند تارے مرے پہلو میں فروزاں کردے
شہرِ خوباں میں تری رات کا مہماں ہوا ہوں
موج در موج سمندر لیے پھرتا ہے مجھے
جتنا ڈوبا ہوں میں اتنا ہی نمایاں ہوا ہوں
محترم رضاالحق صدیقی صاحب۔اس محبت کے لیے بے حد شکر گزار ہوں۔میرے لیے اعزاز ہے۔ڈھیروں دعائیں۔راجہ اسحٰق
جواب دیںحذف کریں