سعید شارق |
مسند ِ عشق ہماری ہے نہ وحشت اپنی
کون چلنے دے سر ِ دشت حکومت اپنی
اپنے جیسا کوئی انسان تو ملنے سے رہا
مَیں بھلا کس پہ جتاؤں گا محبت اپنی
کار ِ دشوار نہیں خواب نگاری لیکن
کور چشمی سے بھی کچھ کم ہے بصارت اپنی
دل پہ تقلید ِ غم ِ رفتہ میں اُترا ہے ملال
یہ پیمبر کہاں لایا ہے شریعت اپنی
آپ کرنے چلا آیا ہوں عیادت اپنی
نیند کے ایک ہی جھونکے سے مکاں ٹوٹ گیا
مَیں نے آنکھوں پہ کھڑی کی تھی عمارت اپنی
بس یہی سوچ کہ رکّھا ہے بچا کر خود کو
کیا خبر کب مجھے پڑ جائے ضرورت اپنی
ہائے افسوس ! کوئی ٹوکنے والا ہی نہیں
لاکھ آئینے سے کرتا ہوں شکایت اپنی
عین ممکن ہے کسی روز امر ہو جاؤں
روح کے ہاتھ میں دے دی ہےنظامت اپنی
وہ بتدریج ہٹاتا گیا نظریں شارقؔ
مرحلہ وار بگڑتی گئی صورت اپنی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں