انور زاہدی |
تمہاری یاد کی بوندیں
دل آزردہ آنگن میں
یونہی برسا کریں گی بس
بدل جائیں گے سب موسم
فلک صحرا کی صورت میں
زمیں تکتا رہے گا
پرندوں کی طرح پتے درختوں سے
جُدا ہوکے
کسی سرسبز رُت کی
ان کہی چاہت میں
غیبی آستانوں کی طرف
ہواوں میں سمٹ کے بکھر جائیں گے
رُت بھی ڈھل جائے گی اور
زمان و مکاں بھی بدل جائیں گے
صبح ہوگی
مگر اُس گُلابی سحر کو ترستی رہے گی
راتیں اپنے تواتر سے آیا کریں گی
شب وصل ڈھونڈیں گی
محو ہو جائیں گی یاد سے صورتیں
بس دئیے جلتی آنکھوں کے
ویراں منڈیروں پہ رکھے ہوئے
شب کی تنہائی میں
آسماں سے
اُترتی ہوئی اوس میں
جگنووں کی طرح
بھیگی آنکھوں کی مانند جل جائیں گے
ایک خاموش تنہائی میں
یاد کی بوندیاں
یونہی برسا کریں گی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں