ڈاکٹر سعادت سعید |
ہاتھی جنگل انسان کا مسکن نہیں بن سکتا
یہ اعصاب شکن چِنگھاڑتے وَحشیوں کا ٹھکانہ ہے
اس جنگل کے کھَڈّو ں میں
شریانوں کی فصلیں کچلی جاتی ہیں
ہر طرف پیڑوں کی شاخوں سے جھولتے الجھتے،
خون میں لتھڑے بوڑھے گھاگ سونڈ ہیں
ایسےلمبے کان ہیں جن کوچیخیں سنائی نہیں دیتیں
ان ہاتھیوں کے بڑے پیٹوں کی دلدلوں میں
ڈوبنے والے سلامت نہیں رہتے
آنکس اور بیڑیاں رکھنے والے
مہاوت اورمحافظ سب کے سب اُن ہاتھیوں سسے خوفزدہ ہیں
جن کے ماتھوں پرانسانی ہڈّیوں اور پسلیوں کے سہرے سجے ہیں
جن کے لمبے دانتوں کے گول خنجروں کی زہری نوکوں میں
بے بسوں کے زرد چہرے پروئے ہوئےہیں
یہاں بے باک ذہنوں،
شیر آنکھوں،پاکیزہ سینوں کو
نوعمر ہاتھیوں کے بد صورت بڑے پیروں کے
دُھرمَٹ پِیس رہے ہیں
یہاں جوان ہاتھی طاقتور باغی جیالوں کے
سروں کوجھوم جھوم کر کچلتے ہیں
ہاتھیوں کے شکاریو!
سنو! محتاط رہو!
تمہارے پاس ہاتھیوں کو پکڑنے کا تمام سازو سامان ہے
تمہارے تھیلوں میں آلانیں،گجباگیں،پھندے، زنجیریں اورآہنی کھونٹے ہیں
مگرتم پیدل ہو اور تمہارے پائوں ننگے ہیں
تم صرف ان ہاتھیوں کے عادی ہو
جو خیرات تقسیم کرنے کے لیے پالے جاتے ہیں
اے شکاریو! تمہارے سامنے وہ مَست ہاتھی ہیں
جو نیزچیوں، فوجداروں اور چارہ دینے والوں کے
بازوؤں،شکموں، شہ رگوں او ہڈیوں کے دشمن ہیں
اس ہاتھی جنگل میں جال بچھانا آسان نہیں
بس جب تم اس میں داخل ہونے کی تمنا کرو
تو اپنی موت کوضرور یاد کر لینا
اس جنگل کی قتل گاہوں سے بچ نکلنا کسی کے نصیب میں نہیں
اے شکاریو!
تم یہاں اُن بادشاہوں کی خدمت کرنے کے لیے آئے ہو
کہ جن کے ہاتھی گھر ویران پڑے ہیں
ان کی گدیاں چولہوں میں جل رہی ہیں
ان کے مہاوتوں کی لاشیں
ڈھانچوں کی شکل میں
ہاتھی گھروں کے کونوں کھدروں میں موجود ہیں!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں