انور زاہدی |
زندگی تجھے میں نے
کس جگہ نہیں دیکھا
صبح کے سویرے میں
شام کے اندھیرے میں
روز کے اُجالے میں
رات کے حوالے میں
خالی گھر کے آنگن میں
رات کی منڈیروں پر
اور اُداس آنکھوں میں
راہ تکتے ہاتھوں میں
مانگتے دعاوں میں
آسماں کے تاروں میں
اور زمیں پہ بچوں میں
گُلستاں کے پھولوں میں
تتلیوں کے رنگوں میں
آرزو کے میلوں میں
دُکھ بھرے جھمیلوں میں
کوہسار کے بن میں
دشت اور صحرا میں
شھر کی حرارت میں
رنگ بھری دھمالوں میں
گیت کے خیالوں میں
بستیوں کی سنگت میں
ریستوران' ڈھابوں میں
گاوں کی چوپالوں میں
شام ڈھلتے کھیتوں پر
رات پڑتی گلیوں میں
سُونے سُونے رستوں پر
چہچہاتے پیڑوں میں
گُنگُناتے چہروں میں
رات کے اندھیرے میں
راگنی کے مدھم سُر
اک ہوا کے جھونکے سے
اک دعا کی مانند یوں
کان میں اُتر جائیں
اور سکون بن پائیں
زندگی کے ہونے کی
داستان بن جائیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں