سلیم شائم |
کہنے سننے کو اب اور کیا رہ گیا
ساتھ تھا بس خدا اور خدا رہ گیا
وقتِ آخر سے پہلے وہ لوٹ آئے گا
بس اِسی آس پر در کھلا رہ گیا
میرے پندار کو اُس نے روندا بہت
جس کی صورت کو میں پوجتا رہ گیا
کتنی پختہ تھیں اس شخص کی نفرتیں
جس کی قربت میں بھی فاصلہ رہ گیا
وقت کی شاخ پر جھولتا رہ گیا
میں حوادث کی زد میں رہا عمر بھر
اور آسانیاں مانگتا رہ گیا
چاند دیکھے بنا عید ہوتی نہیں
میں یہی سوچتا ،سوچتا رہ گیا
کیا کہوں دوستوں کی عنایات ہیں
یوں جو تنہا جہاں میں کھڑا رہ گیا
توبہ کر لی گناہوں سے شائم مگر
پھر بھی دل پہ کوئی بوجھ سا رہ گیا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں