گلُریز رُوحـانی- اَمر رُوحـانی |
نظر کی ٹھیس سے ٹکڑوں میں بٹ گیا ہوں میں
کہ پور پور خراشوں سے پٹ گیا ہوں میں
تری تلاش میں خود کو الٹ پلٹ ڈالا
تجھے کرید کے خود سے لپٹ گیا ہوں میں
نہیں رہی وہ کھنک کوئی ٹھیکرے والی
نہ جانے کون سی مٹی سے اٹ گیا ہوں میں
جو ایک پھونک تفوّق کی مجھ میں پھیل گئی
اسی ہوا کے دباؤ سے پھٹ گیا ہوں میں
یہ تیری دی ہوئی طاقت ہے اے زوال مرے
ترے عروج کے آگے بھی ڈٹ گیا ہوں میں
بس ایک دید ہی کافی ہوئی سرِ محمل
بس اک نظر میں ترا عکس رٹ گیا ہوں میں
یہ کائنات مری وسعتوں کا نقطہ ہے
یہ راز جان کے خود میں سمٹ گیا ہوں میں
ترے خرام سے خائف ہیں یہ مہ و انجم
مرے نصیب! تری رہ سے ہٹ گیا ہوں میں
نشست گاہ کے صوفوں پہ گرد بیٹھی ہے
غمِ جہاں میں زمانے سے کٹ گیا ہوں میں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں