ڈاکٹر صباحت عا صم واسطی |
پیکر پسِ غبار چھپا لے گئی ہوا
تجھکو مری نظر سے بچا لے گئی ہوا
کل شب لگائی نیند کے چھونکے نے دل پہ نقب
طشتِ خیال یار اٹھا لے گئی ہوا
خوشبو ترے بدن کی رہی ساتھ چند سانس
لائی تھی اپنے ساتھ ہوا لے گئی ہوا
رکھے تھے میری میز پر کچھ پھول کچھ خطوط
کھڑکی کھلی ملی تو اڑا لے گئی ہوا
صحرا میں جو بھی نقش بنا لے گئی ہوا
دو چار سانس کر دئیے خیرات کیا ہوا
لاچار گانِ دم کی دعا لے گئی ہوا
مائل کیا خرامِ زیاں خیز کی طرف
صحرا کی سمت ابر بہا لے گئی ہوا
عاصم گلِ نہال ہے یوں بھی زیاں فروغ
مہکار لے گئی بھی تو کیا لے گئی ہوا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں