ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

پیر، 18 اگست، 2014

خدا سب کو یاد رکھتا ہے۔۔ آصفہ نشاط کا خوبصورت افسانوی مجموعہ(تحریر ناصر ملک)

یو ایس اے میں مقیم پاکستانی نژاد افسانہ نگار آصفہ نشاط کا مجموعہ "خدا سب یاد رکھتا ہے" عہدِ موجود کے چند بہترین افسانوں پر مشتمل ہے۔ "کتاب بہترین ساتھی ہے، اس سے پیار کیجئے" کا ننھا سا ترغیب نامہ کتاب کے ابتدائی صفحات پر موجود ہے جس کے بعد احبابِ سخن کی مختصر آراء اور پھر آصفہ نشاط کے ہنر کو اسد اللہ حسینی چکر ،عطیہ نیازی،سید ظفر عباس، عرفان مرتضیٰ، رضوانہ اقبال ایمن اور مجید اختر کے منظوم خراجِ تحسین کتاب کے حسن کو دوبالا کرتے ہیں۔ 
اس خوب صورت افسانوی مجموعے میں ستائیس افسانے شامل کیے گئے ہیں جو اپنے موضوعات اور تنوع کے لحاظ سے ناقابلِ فراموش ہیں ان کے عنوانات؛ صورتِ خورشید، سیانی، شناخت، شطرنج، صفحہ سات کالم چار، وظیفے کا پیالہ، ڈاکٹر جنید کی بالادستی، دوزخن، فنکار، جنریشن گیپ، آئیڈیل پیکجز، جہاں تیرا ہے، جنت+جنت، جو رہی سو بے خبر رہی، لیری پارکر کو کال کرو، مستقبل، رنگ، آگے چٹان نہیں ہے، ابو نصر ابو نصیر، بون سائی، بھابھی کی لیبارٹری، چھٹا کلمہ رد کفر، چھوٹی بریکٹ شروع بڑی بریکٹ بند، خدا سب یاد رکھتا ہے، وہ بات سارے فسانے میں اور ۔

کتا کہیں کا؛ ہی آشکار کرتے ہیں کہ آصفہ نشاط کا فکری کینوس عہدِ موجود سے کتنا ہم آہنگ ہے۔ وہ ایک ہی وقت میں ایک زمانے کے دو مکانوں میں زندگی گزار رہی ہیں۔ انہیں انسانوں میں رینگتے اور سسکتے ہوئے نچلے طبقے کے مسائل اور اضطراب کا جہاں بخوبی اندازہ ہے، وہاں دنیا پر راج کرنے والی قوم کے باطن سے بھی شناسائی ہے۔ دو انتہائوں میں معلق رہتے ہوئے انہوں نے زندگی کے جس روپ کو جس نظر سے دیکھا اور جس نوع کی تصویر بنانے میں کامیاب ہوئیں، انہوں نے پوری ایمانداری سے غیر مصالحتی انداز میں رقم کر دیا۔ انسان خوبصورت تخلیق ہے؛ انہیں دکھائی دیا۔ انسان درندوں سے بھی بدتر ہے؛ انہیں دکھائی دیا۔ دونوں بصارتوں پر انہوں نے پہرہ نہیں بٹھایا بلکہ حقیقت کشا الفاظ میں بیان کر دیا۔ گویا انہوں نے اپنی آنکھوں کو کسی بلند جگہ پر نصب کر کے زباں خاموش کر لی تھی اور بغیر کسی مداخلت کے گلی کوچوں میں ہونے والے تماشے کو بہ نظرِ عمیق دیکھا اور پھر اپنی خاموشی میں گندھی ہوئے مشاہدات اور محسوسات کو یک لخت زبان دے دی۔ یہ زبان افسانوں کے لباس میں رقص کناں ہے اور اپنی ہویت کا بہترین احساس دلاتی ہے۔ 
آصفہ نشاط کے ہاں تخلیق پانے والا افسانوی ماحول روایت سے ہٹ کر زمین سے جڑا ہوا ہے۔ وہ بڑی محنت سے کردار کا انتخاب کرتی ہیں اور پھر اس کردار کی جزئیات ترتیب دیتی ہیں۔ معاشرے میں عام مستعمل زبان میں جب کردار باتیں کرتا ہے تو اس سے بے حد اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ آصفہ نشاط کا تخلیق کردہ کردار ہم جیسا ہے، گویا ہم میں سے ہی ہے۔ ان کا افسانہ "سیانی" ان زود فہم سطور سے شروع ہوتا ہے ۔۔۔ "شکیلہ کو پتہ نہیں تھا کہ اس کا منہ چھتر ورگا ہے یا سلیٹ ورگا۔۔۔ اس کی بوتھی کوجھی ہے یا سوہنی۔۔۔ یہ سب تو اس کی دائی، چاچی اور ماسیاں سڑ بل کر کہہ رہی تھیں۔ اب سڑنا تو تھا ہی کیونکہ پورے محلے میں کسی بھی لڑکی کی ایسی بری نہیں آئی تھی۔" (سیانی: 25)
عمومی خواتین افسانہ نگاروں کی طرح آصفہ نشاط تحریر کو طول دینے کے عادی نہیں ہیں بلکہ کم سے کم الفاظ میں زیادی سے زیادہ کیفیات کو ضم کرتی ہیں۔ لفظوں کے انتخاب میں وہ بہت محتاط ہیں۔ دیکھیے: "اس کی پہلی بیٹی شہزادی پیدا ہوئی۔۔۔ پھر دوسری رانی۔۔۔ تیسری گڑیا۔۔۔ چوتھی ملکہ تو اس کا دل گھبرا نے لگا۔ چار بیٹیاں۔۔۔خیر! اللہ ایک پتر بھی دے دے تو بات بن جائے۔ آسرا لگ جائے۔" (سیانی:27)
وہ انسانی نفسیات اور مسائل کے حل کی کوششوں سے اس ظالمانہ حد تک واقف ہیں کہ ان کا افسانہ جونہی اختتام کو پہنچتا ہے، انسان شل ذہن اور شل وجود لیے ایسی بند گلی میں جا کھڑا ہوتا ہے جہاں اُسے کوئی امید کوئی روشنی کی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ زیرِ بحث افسانے کا انجام بکھیرتی ہوئی چند سطریں ملاحظہ کیجئے :"اس آدمی نے شکیلہ کو پانچ لاکھ روپے کا چیک دیا۔ پتہ چلا کہ ہر مرنے والے کے گھر والے کو چیک دیے جا رہے تھے۔ پانچ لاکھ روپے انسان کے دردکو کتنا کم کر سکتے ہیں،اس بات کا شکیلہ کو اس دن پتہ چلا۔ اور یہ بھی پتہ چلا کہ ہر مرنے والے کے پانچ لاکھ ملتے ہیں۔اس رات ہسپتال کے اس وارڈ میں ایک ننھی سی بچی کی ڈرپ نکل گئی۔سوئی نس میں رہ گئی جس سے خون نکلتا رہا اور صبح ہونے سے قبل ہی بچی کی زندگی کی شام ہو گئی۔ڈرپ کیسے نکل گئی؟اس بات کا کسی کو پتہ نہیں چلا تھا۔ اگلی صبح شکیلہ سینے پر دوہتھڑ مار مار کر خوب روئی اور ٹی والوں نے یہ سین کئی بار دکھایا ۔۔۔ہسپتال کے عملہ میں قدرے اضطراب پھیلا تو شکیلہ کو اندازہ ہوگیا کہ کوئی بڑا آدمی آنے والا ہے۔"(سیانی:30)
وہ اتنی بڑی سچائی اتنے عام سے انداز میں بیان کر سکتی ہیں کہ پڑھنے والا گنگ رہ جاتا ہے۔ وطنِ عزیز سے غربت کی چکی میں پستے ہوئے تارکینِ وطن کا دکھ چونکہ انہوں نے خود سہا ہے، اس لیے وہ اسے بیان کرنے میں زیادہ بے باکی اور فصاحت رکھتی ہیں۔ وہ ایسے ہی ایک باشناخت تارکِ وطن پر لکھتے ہوئے افسانے کا اختتام کرتی ہیں: "جی ہاں، اب میرا نام شہر یار خان نہیں، شیری کہان ہے۔ میرے پاس کوئی ڈگری نہیں۔ میری کوئی شناخت نہیں مگر مجھے اچھی سی ملازمت مل چکی ہے۔ معذوروں کے کوٹے میں!" (شناخت:34)
صحافت کی زرد غلام گردشوں کی لفظوں کی بنی ہوئی تصویریں دکھاتے ہوئے وہ بڑی بے باکی اور مستعدی سے ایک ایڈیٹر کا احوال پیش کرتی ہیں جس کو "خبر بنانے" کا ہنر آتا تھا۔ وہ عام سی خبر کو مرچ مصالحہ لگا کر اس انداز میں پیش کرتا تھا کہ پڑھنے والے اس خبر کو بار بار پڑھنے پر مجبور ہو جاتے تھے مگر پھر یوں بھی ہوا کہ وہ صحافی خود ایک ایسی ہی خبر کا شکار ہو کر منہ چھپانے لگا۔ (باقی صفحہ سات کالم چار: 48)
آصفہ نشاط کے افسانوں کی خوبی یہ بھی ہے کہ جملوں کا غیر معمولی ربط ایسے فطری بہائو کی تشکیل کرتا ہے کہ جب تک افسانہ مکمل پڑھ نہ لیا جائے، کتاب کو بند کرنا محال ہوتا ہے۔ ان کے افسانوں، وظیفے کا پیالہ اور دوزخن کی تشکیل میں بنیادی کردار خوبصورت اور برجستہ مکالموں کا ہے۔ دوسرے افسانوں کی طرح ان میں بھی آصفہ نشاط نے کرداروں کے درمیان سرانجام پانے والے مکالموں کی بے ساختگی اور شگفتگی پر کہانی استوار کی ہے۔ بالخصوص آخری مکالمے تو قاری کو باقاعدہ طور پر چونکا دیتے ہیں۔ 
ان کے ہاں غلطی کرتے اور پھر اپنی غلطی پر توجیہات کا پردہ تانتے ہوئے کردار اچھوتے انداز میں خود کو پیش کرتے ہیں۔ یہاں بھی وہ حسنِ بلاغت و فصاحت کو سامنے رکھتے ہوئے منظر بنتی ہیں۔ دیکھیے :"میں نے دوسری بار جھوٹ بولا تھا مگر انتہائی مجبوری میں، تیسری بار جان چھڑانے کے لیے، چوتھی بار عزت بچانے کے لیے، پانچویں بار مصلحتاً ، چھٹی بار ضرورتاً اور اب ظاہر ہے عادتاً۔" (فنکار:82) وہ ایک ہی لائن میں کس طرح اپنے کردار کی تشکیل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں، حیران کن امر ہے۔ 
آصفہ نشاط کے افسانوں میں ایک تحیر آمیز کیفیت جابجا ملتی ہے۔ ان کے ایک افسانے "آگے چٹان نہیں ہے" میں انسانی عادات کو جس لطیف پیرائے میں بیان کیا گیا ہے، وہ خال ہی کسی اور مقام پر دکھائی دیا ہو کہ سمندری راستے میں ایک چٹان پر لکھا ہوا جملہ "آگے چٹان نہیں ہے" لکھنے والا شخص کتنا عجیب ہے اور جو اس جملے پر عمل پیرا ہو کر انجام پذیر ہوتا ہے، وہ کتنا عجیب ہو گا۔ 
مجھے "خدا سب یاد رکھتا ہے" کے سبھی افسانے اپنے اپنے ڈارک روم میں لے جاتے رہے، اپنا آپ آشکار کرتے رہے اور میں حیرانی سے آصفہ نشاط کے سبک رو قلم کے بارے سوچتا رہا جس نے اردو ادب میں شہکار اضافے کرتے ہوئے کئی 
نئی راہیں نکالیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناصر ملک
اردو سخن ڈاٹ کام

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں