ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

پیر، 31 اکتوبر، 2016

نومبر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تجھ سے کچھ کہنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ زارا مظہر

زارا مظہر
نومبر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تجھ سے کچھ کہنا ہے
کچھ امیدیں ہیں
کچھ خواہشیں ہیں
کچھ خواب ادھورے ہیں
اذّیت ہے ، وحشت ہے
ندامت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ 
کچھ زخم ہیں
جنکی رفاقت ہے
اِک بے نیازی 
تیری عادت ہے
درد بڑا بے درد ہے 
یا شاید ہمدرد ہے
کچھ نشتر ہیں یادوں کے
کچھ دُکھ نارسائی کے
ہجر کی آ بلہ پائی کے
نیندوں کا دیس پرایا ہے
نومبر ۔ ۔ ۔ ۔
تو پھر لوٹ آ یا ہے
امید ہے نا آس ہے 
کسک ہی کسک پاس ہے
رات کی خاموشی بھیگی سی ہے 
پلکوں پہ نمی مستقل سی ہے
ہمراہ کچھ بے بسی ہے 
چین ہے نا قرار ہے 
نا خود پہ کچھ اختیار ہے
نا تو یاد کرتا ہے 
نا ہم نے بھلایا ہے 
نومبر ۔ ۔ ۔ ۔ 
تو ۔ ۔ ۔ ۔ پھر لوٹ آ یا ہے

بدھ، 21 ستمبر، 2016

جاگے ہیں جذبے ۔ الوہی ۔۔ زارا مظہر

بھیجے ہیں اس نے آ ج 
پھولوں کے کچھ حسین گہنے  
جوہی کی نازک کلیاں
بیلے کا البیلا کنگن 
گیندے کا چمکتا جھومر 
گلابوں کے ہار خوشبو دار 
کسی میں خوشبو
 کسی میں نزاکت 
کسی میں تازگی 
کسی میں لطافت۔ 
بندھا ہے رنگ 
خوشبوؤں کے سنگ 
کمرہ ۔  مہک گیا ہے 
من ۔ دہک گیا ہے
جاگے ہیں جذبے ۔ الوہی
پھر بھی ہے کہیں  کچھ کمی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
رنگوں کی برسات ہو 
خوشیوں کی بارات ہو 
آ ج ۔   اگر تیرا ساتھ ہو 

اتوار، 18 ستمبر، 2016

کھوٹے سکے ،،، زارا مظہر

زارا مظہر
میرے چند حسین ،ناقابلِ گرفت خواب ان کھوٹے پیسوں کی طرح ہیں جو خرچ نہیں کیئے جا سکتے بس پڑے ہی رہتے ہیں ۔ عام طور پر گھروں میں ایک برتن مختص کر دیا جاتا ہے جو کسی  کارنس ، شوکیس ، یا ذرا اونچی جگہ پر رکھ دیا جاتا ہے تاکہ کار آ مد الّم غلّم اس میں ڈال دیا جائے اور بوقتِ اشد ضرورت اسے کھنگال کر کام کی چیز نکال لی جائے اب پیسے چونکہ پیسے ہیں پھینکے نہیں جاسکتے تو اس میں ڈال دیئے جاتے ہیں ۔ بس میرے خوابوں کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ریا ۔ لڑکیاں اوائل عمری سے ہی کالے مُشکی گھوڑے والے شہزادوں کے خواب دیکھنا شروع کر دیتی ہیں اچھے گھروں،کوٹھیوں،بنگلوں اور کچھ زیور لتّے کے مگر میرے خواب کچھ انوکھے رہے ۔ ہمیشہ ہی کسی کہانی کا پلاٹ ، لوکیشن، تانا بانا، حتیٰ کہ پورے پورے ڈائلاگ تک وحی کی طرح اترتے گہری نیند میں بھی ایک ہوش مندی کی کیفیت رہتی کانوں میں نِدا آ تی رہتی اٹھو اور لکھ لو مگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔جوانی کی مست نیند ایسا گھیرتی کہ اٹھ کر کچھ قلم بند کرنے کی ہمت نہ پڑتی اور صبح جب آ نکھ کُھلتی تو مفلس کی محبوبہ کی طرح سب روٹھ چکا ہوتا ۔
تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا جہاں کورس کے علاوہ کسی کتاب کو ہاتھ لگانا ناقابل معافی جرم ہوتا اور پکڑی جانے والی کتاب جو کسی دوست سے پڑھنے کے لئیے ادھار لی گئ ہوتی ناقابل بیان سرزنش کے ساتھ چار ٹکڑوں میں تقسیم کر کے ہتھیلی پر رکھ دی جاتی ۔ مگر پھر بھی اس دور میں اتنی کتب پڑھیں کہ اب حیرت ہوتی ہے چاند کی چاندنی میں چھت پر ناگن سپیروں کے ایسے ایسے قصے پڑھے کہ ڈر سے بستر سے پاؤں اتارنے کی ہمت نا ہوتی خوف سے حلق میں کانٹے پڑ جاتے چیخنے کی کوشش میں گلہ بند ہو جاتا مگر لت ایسی لگی تھی کہ عمروعیار کی زنبیل بھی اپنے شوق کے آ گے چھوٹی پڑ جاتی  ٹارزن کی ساری سیریز پڑھ لیں ابنِ صفی کے ناول  جولیا ،جوزف کے قِصے اور وہ اشتیاق احمد کی کہانیاں لگتا کہ اگر اسکا  نیا آ نے والا ناول سب سے پہلے نہیں پڑھا تو ملک کو درپیش خطرات کا دفاع کیسے ہوگا خیر سلسلہ تو چلتا ہی رہا بڑے ہونے پر نوعیت ذرا بدل گئ سسپنس ڈائجسٹ میں چھپنے والے سلسلے نے سالوں سحر میں جکڑے رکھا ۔ کالج آ نے تک بڑے لکھاریوں پر نظر رہنے لگی جو کالج کی لائبریری سے پوری ہونے لگی نسیم حجازی کے سارے اسلامی اصلاحی ناول پہلے سال پڑھ ڈالے کیوں کہ فسٹ ائیر کو کسی اور قسم کی کتابیں ایشو نہیں کی جاتی تھیں لائبریرین نے شوق دیکھ کر آ فر کر دی کہ فارغ پیریڈ میں میرے ساتھ کتابوں کی ترتیب سیٹ کروا دیا کرو تو اپنی پسند کی کتاب پڑھنے کے لئیے لے سکتی ہو واہ جی پھر تو موج ہی لگ گئی کام کے دوران بڑے بڑے ناموں کی لسٹ نوٹ کل لی جاتی اور پھر دامے،ورمے،سخنے فائدہ اٹھا لیا جاتا مگر پیاس نا بجھتی 
        شادی کے بعد کوئ پابندی تو نہیں تھی مگر گھریلو ذمہ داریوں نے ایسا جکڑا کہ وہی چھپ چھپا کر پڑھنے والی زندگی غنیمت لگتی مگر اوپر تلے بچوں کی آ مد نے ایسا  بد حواس کیا کہ خواب آ نے ہی بند ہو گئے البتہ کتابوں کا ساتھ نہیں چھوٹ سکا جو بھی میّسر ہوئ اسے جانے نہیں دیا ٹرین کے دور دراز سفروں میں کتاب بھی ہمسفر رہتی اکثر اوقات نان پکوڑے والا اخبار بھی جھاڑ جھپاڑ کر استفادہ حاصل کر لیتی کبھی کبھار کوئی بھولا بسرا  خواب پلکوں پہ اٹکا بھی رہ جاتا تو بستر چھوڑنے سے پہلے یہ بات ذہن میں ہوتی کہ منّے یا منّی کو اٹھنے سے پہلے منہ میں فیڈر دینا ہے تاکہ وہ سوتی رہے اور پھر اسکول جانے والے بچوں کے کام ایک ترتیب سے دماغ کا احاطہ کیۓ رہتے ایک چوٹی ایک کی ٹائ باندھنے میں مدد ایک پیر کچن میں ایک لاؤنج میں ناشتے کے ساتھ ساتھ بچوں کے لنچ باکس اور گھڑی کی ٹِک ٹِک  کا ساتھ دیتے دیتے ہلکان ہو جاتی میاں کی آ فس تیاری میں مدد میچنگ موزے رومال سامنے پڑے نظر نا آ تے ۔ سبکے سدھارنے کے بعد اپنے ناشتے کے دوران میڈ کی آ مد جو اتنی جلدی میں ہوتی کہ لگتا پوری کالونی کے گھروں کو اس نے ہی نمٹانا ہے یا اسکی ٹرین نِکل جائے گی اور جہاز تو ضرور ہی اڑ جاۓ گا اسکے ساتھ کھپتے کھپتے اگر رات کا دیکھا کوئ بھولا بِسرا خیال ذہن میں آ تا بھی تو فراغت تک اُڑن چھو ہو جاتا ۔
خیال کی تتلیاں اور خواہشوں کے جگنو اتنے نازک ہوتے ہیں کہ بس آ نکھ کُھلنے کے ،شور، سے ہی اُڑ جاتے ہیں وہ کہاں انتظار کرتے ہیں کہ آ پ فارغ ہوں تو ہم بھی دستیاب ہوں خوابوں کو قلم کی گرفت میں لانے کے لئیے دِماغ کی یکسوئی اتنی ضروری ہے کہ فرشتوں کے پروں کی آ واز تک سنائ دیتی ہے اگر مطلوبہ یکسوئی نا  مِلے تو چاہے آ پکے پاس ہزاروں الفاظ کا ذخیرہ ہو انوکھے،اچھوتے،رنگین،سنگین کیسے ہی خیال ہوں خوبصورت کاغذ قلم ہوں کچھ نہیں لِکھا جا سکتا اور اگر آ پ کے گِرد ایک خوبصورت یکسو
 ماحول  ہو ذہن اپنی سوچ میں آ زاد ہو سونے جاگنے پر کوئ پابندی نا ہو (مطلب آ پ جب مرضی اٹھ کر لِکھنا شروع کر دیں )تو ہی کچھ لکھنے کے خواب پایۂ تکمیل تک جاتے ہیں ایک خاص بات بھی ابھی کچھ عرصہ پہلے علم میں آ ئ کہ یہ سارے لِکھاری،شعرا،اور ادیب بڑھتی عمر کے ساتھ اتنے خوبصورت اور گریس فل کیسے ہو جاتے ہیں جب آ پ اچھوتے خیال خوبصورت الفاظ اور انوکھے رنگ لکھتے ہیں  تو یہ ساری کیفیات طاری کرنی پڑتی ہیں تو یہ ساری سوچیں انہیں بھی اتنا ہی حسین و رنگین بنا جائیں گی پہلے وہ اپنے اچھوتے خیال کو پہنیں گے الفاظ کو اوڑھیں گے انوکھے رنگ میں ڈوبیں گے تو ہی کچھ ڈھالیں گے اور ڈھلنے تک یہ ساری خوبصورتیاں انکی شخصیت کا بھی حصہ بن جاتی ہیں 
   بات کر رہی تھی اپنے کھوٹے سِکوں کی اور کہاں سے کہاں جا نکلی میرے چند ایسے ہی کھوٹے سِکے جو طاقِ نسیاں بن چکے تھے چل گئے ہیں اور مجھے وہی خوشی ملی ہے جو کھوٹا سِکہ خرچ کرنے کے بعد ملتی ہے  ۔ تھوڑی حوصلہ افزائی سی ہو گئی ہے ایسے سِکوں کی ایک پوری بوری ہے جو میں پچھلے چند سالوں میں جمع کر چکی ہوں سوچتی ہوں کبھی کبھار داؤ لگا کر خرچ کر ہی لیا کروں گی جس سے دوکاندار کو شاید اتنا نقصان نہیں ہو گا البتّہ میرے حِصّے میں وہ خوشی ضرور آ ۓ گی جو کھرے سکے کو خرچ کرنے کے بعد  نہیں ملتی

اتوار، 11 ستمبر، 2016

الجھی سلجھی محبت (نظم) ۔۔۔ زارا مظہر

زارا مظہر
کھویا کھویا چاند تھا 
ہر سماں ماند تھا 
رات بھی سہانی تھی 
پُرفسوں اسکی کہانی تھی
چاندنی چِٹکی تھی چارسو
روپہلا سنّاٹا  دو بدو
نم، ریتلی ،  ساحلی ہوا 
سرِ گوش تھی جا بجا  
بنسری تھی یا نوائے سروش 
سطحِ برآب پانی بھی خاموش
مست اُڑتا،لہراتا آ نچل 
من پاگل ،تن بھی پاگل 
رنگیلی ہوا،سریلی فضا 
گردوپیش میں تھی نغمہ سرا
پرسمے چپ چاپ بیت گیا
لمحہ لمحہ بن کر جیت گیا
نا کسی سے بیان ہوئی 
نا کسی پر عیاں ہوئی  
سلجھتی رہی باہر 
الجھتی رہی بھیتر 
اپنے آ پ سے محبت 
اپنے آ پ سے محبت

جمعرات، 8 ستمبر، 2016

کتنی سادہ سی اپنی کہانی ہے ۔۔ زارا مظہر

زارا مظہر

کتنی سادہ سی اپنی کہانی ہے
بس بہتے پانی کی روانی ہے ۔ ۔ ۔ 
داستان ذرا طول ہے ,طولانی ہے
کچھ کہہ دی ہے ,کچھ سنانی ہے
وہ نہیں مِلا تھا تو اور بات تھی
مِل گیا ہے تو بھی خلش انجانی ہے
وہ آ شنا گزرا کتنی بے آ شنائی سے
گُپ  رستوں کو آ ج تک حیرانی ہے
بہت شور تھا پہلو میں دل کا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
اب خاموش ہے اور کتنی ویرانی ہے
زندگی کی شائد بس اتنی کہانی ہے
ایک چائے کا کپ،اِک پھول کی جوانی ہے

منگل، 6 ستمبر، 2016

ا دبی تنظیم جگنو انٹر نیشنل کا کویت میں مقیم منفرد اسلوب کے شاعر فیاّض وردگ کے اعزازمیں آزادی مشاعرہ

علمی، ادبی،سماجی و ثقافتی روایات کی امین تنظیم،’جگنو انٹرنیشنل کے زیرِ اہتمام ،الحمرا ادبی بیٹھک لاہور میں خلیجی ممالک میں اردو زبان کی ترویج میں سر گرمِ عمل ممتاز شاعر،ادیب فیاض وردگ کے اعزاز میں  آزادی مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔ پروگرام کی میزبانی ممتاز شاعرہ،ادیبہ،ماہرِ تعلیم، چیف ایگزیکٹو جگنو انٹر نیشنل،ایڈیٹر احساس، جرمنی محترمہ ایم زیڈ کنول ؔنے کی۔صدارت کے منصب پراستادشاعر،صحافی،ادیب،دانشور،سرفراز سیّد فائز تھے۔ کوآرڈینیٹر،جگنو انٹرنیشنل،موریشیس،ممتاز شاعر،ادیب،چیئرمین نقش ہاشمی فاؤنڈیشن،اختر ہاشمی،موجِ سخن کے بانی معروف شاعر،کوآرڈینیٹر،جگنو انٹر نیشنل،کراچی  صحافی،نسیم شیخ ، معرو ف صحافی،شاعر، کالم نگامیڈیا کوآرڈینیٹر،جگنو انٹرنیشنل،میانوالی،سیّد صداقت نقوی اور صاحب ِ تصوف شاعر،خرم خلیق مہمانانِ خصوصی کی حیثیت میں سٹیج پر رونق افروز تھے۔ تقریب کا آغاز حسبِ روایت تلاوتِ کلام پاک سے ہوا، جس کی سعادت مظہر جعفری کو حا صل ہوئی۔ بعد ازاں پروفیسر نذر بھنڈرنے انتہائی خوبصورت انداز میں نعت ِ رسولِ مقبول ﷺ پیش کی۔مقصود چغتائی میڈیا سیکرٹری جگنو انٹر نیشنل نے پروگرام کی رپورٹ پیش کی۔ حسین مجروح،شگفتہ غزل ہاشمی، ڈاکٹر افتخار بخاری،ڈاکٹر ناصر چوہدری، ندا سرگودھوی،جاوید قاسم، اعجاز فیروز اعجاز،سیدہ فاطمہ رضوی،روبینہ راجپوت،سید فراست بخاری،میجر خالد نصر،ڈاکٹر عاصم بخاری،قیصر معراج منظر، یاسر شمعون،عمران حفیظ (میانوالی) ڈاکٹر ایم ابرار، غلام شبیر عاصم،ابرا ر احمد،شبیر ایثار،عالیہ بخاری،شاہد عمران شاہد(گجرات)، مصدق محمود، (گجرات)، ممتاز راشد لاہوری،میاں صلاح الدین،اور دیگر نے اپنے خوبصورت کلام سے محفل کو گرمایا۔دوسری سالانہ تقریبِ ایوارڈ  2016  کے موقع پر جگنو انٹر نیشنل کے زیرِ اہتمام ِ علمِ عروض  پر مبنی نسیم شیخ (کراچی)کی شہرہ آفاق تصنیف       ”موجِ سخن“کوایوارڈ کے لئے منتخب کیا گیا تھا۔ انہیں وہ ایوارڈ اس موقع پر دیا گیا۔ صداقت نقوی(میانوالی)کے لئے شیلڈ آف آنرکا اعلان کیا گیا تھا۔انہیں بھی اس تقریب میں وہ شیلڈ دی گئی۔

تمام احباب نے جگنو انٹر نیشنل کی ادب کے لئے کی جانے والی کاوشوں کو بھی سراہا اور مبارکباد پیش کی۔الحمرا ادبی بیٹھک،زندہ دِلانِ لاہور نے خلیج سے تشریف لائے مہمان کی بھر پور پذیرائی کی۔جس پر انہوں نے جگنو انٹر نیشنل کی تمام ٹیم خاص طور پر چیف ایگزیکٹو تنظیم، محترمہ  ایم زیڈ کنولؔ کی ادب کے لئے کی جانے والی خدمات کو سراہا اور اس موقع پر لاہور کے اہلِ قلم کو  بھی خراجِ تحسین پیش کیا۔تقریب میں شاعروں، ادیبوں، طلبہ، اور ممتاز ادبی و سماجی شخصیات نے شرکت کی جن میں مہر صفدر علی، نیلما ناہید دُرانی، تسنیم کوثر، رابعہ رحمٰن،اُمّ لیلیٰ رانا،سید فردوس نقوی،خوجہ آصف، گل سلطان، قاضی منشا، رانا سلطان محمود،محمد سہیل، رفیق شہزاد،منظر خان،حاجی اِرشادقادری، ریاض جسٹس اور دیگر شامل تھے۔ ملک کی سلامتی کے لئے دعائیں مانگی گئیں۔

بدھ، 31 اگست، 2016

کوئی صبحِ آ سودہ ،خدایا، کوئ شامِ اعتدال ۔۔ زارا مظہر معاشرے کی حالتِ زار پر نوحہ کناں ہیں

زارا مظہر 

یا اللہ
 ہر طرف ایک سہم کی صورتحال کیوں ہے ،
،کیوں زندگیوں کا کوئ گوشہ امن میں نہیں ہے ۔ایک چھینا چھپٹی ، بد امنی ،اور لوٹ کھسوٹ کا بازار کیوں گرم ہے ۔کسی زمانے میں اغوا اور ریپ،اور اغوا برائے تاوان کی کہانیاں دہرائی جاتی تھیں لگتا ہے زمانے لد گۓ یا برائی کے عفریت کو منہ کا ذائقہ بدلنا ہے ۔بات  معصوم بچوں کے اغوا اور کاٹ چھانٹ پر جا پہنچی  ہے اسکی سراسیمگی پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیۓ بیٹھی ہے چھوٹے بچوں کی مائیں سچ مچ کے عذاب میں مبتلا ہیں جب تک بچے اسکول میں، ماؤں کے دل دھکڑ پکڑ دھکڑ پکڑ میں مبتلا ہیں اسکول سے واپسی پر صبح کے کاموں کو لپیٹتی مائیں بچوں کو نہلا دھلا اور کھانا کِھلا کر فارغ ہویئیں تو اب بچوں نے دینی تعلیمات کے لئیے جانا ہے ( لوئر مڈل کلاس اور نیچے کی ساری کیٹیگریز ) کون چھوڑے گا بھلے گلی کے کونے میں ہی جانا ہے بچے خوف زدہ جانے سے انکاری ، اب ماں دو چھوٹوں کو کندھے سے لگائےاور دو کو خوف کے کندھے سے لگائےچھوڑ کر آ ئے گی واپس خود نہیں آ نا کی تاکید ایک سو ایک دفعہ دہراتی واپس ہو گی ۔کندھے والے کندھے پر ٹنگے ٹنگے تھک  گئےہیں انکے چڑچڑے پن کو سہلاتی ،آ سودہ کرتی خود کب آ رام کرے گی ۔چڑچڑ نہیں کرے گی تو کیا پُھلجھڑیاں چھوٹیں گی ۔؟ ذہنی تفکرات ،معاشی و معاشرتی بوجھ اور مسلسل بے آ رامی ، زندگی کی گاڑی کا پہیہ کتنا مشکل ہے نا ۔
بچوں کے ذکر سے وہ شامی،بے حس و حرکت مٹی کا ڈھیر بچہ یاد اگیا  جسکی ویڈیو گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہو کے اہلِ دل ونظر کو خون کے آ نسو رُلاتی رہی وہ گم سم بچہ سب کے حواس گم کئے ہوئے ہے ۔کیا دیکھ لیا اس نے ،کس جہانِ لاہوت کو چھو آ یا ہے کہ اب بولنا ہی نہیں چاہ رہا ۔خاموش ، گپ چپ ،خالی آ نکھ ،خالی دل کے ساتھ مثلِ روبوٹ  کیسا ٹھنڈا ٹھار دِکھتا رہا ۔
آ ج یہ  دھماکہ، کل وہاں آ پریشن ،کہیں توڑ پھوڑ کہیں لوٹ مار کا بازار گرم ہے بے حِسی معاشرے میں اتنی در آ ئ ہے کہ کسی کی جان جا رہی ہے کسی کا عمر بھر کا اثاثہ لُٹ رہا ہے مگر عاقبت بُھولے لوگ لوٹنے میں مصروف ہیں ۔پتہ نہیں دنیا میں اب کبھی امن کی واپسی ممکن بھی ہے یا وہ اس جہان فانی سے رخصت ہو چکا ہے فاتحہ پڑہی جا چکی ہے اس پر شاید یا شاید قربِ قیامت کی نشاندہی ہیں یہ چھوٹی چھوٹی قائم ہوتی قیامتیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔شائد ؟؟؟

جمعرات، 25 اگست، 2016

ٹوٹی پھوٹی عورت ۔ زارا مظہر

تحریر: زارا مظہر

ٹوٹی پھوٹی عورت


وہ اپنی حلقہ احباب میں آ ئرن لیڈی کے نام سے جانی جاتی تھی خوش حالی اور آ سودگی چہرے اور عادات سے ظاہر ہوتی تھی بہت خوب صورت نہیں تھی مگر فراغت نے چہرے پر بارعب سی ملاحت،طمانیت اور لاپرواہی گھول دی تھی۔
لائق فائق ،خوبصورت بچے،چاہنے والا ویل سیٹلڈ شوہر ،سجا سجایا گھر ایک عورت کو اور کیا چاہیے۔دیکھنے والےدیکھتے ہر گزرتا دن اسکو ایک مسحور کن تابانی بخش رہا تھا ہر روز ایک دن چھوٹی ہو جاتی خوش مزاجی انگ انگ سے پھوٹتی اپنی دنیا میں مست، ملنگ اکثر لوگ سمجھتے مغرور ہے مگر وہ تو احساسِ طمانیت تھا جو اسے یہ سارے الوہی رنگ عطا کر گیا تھا ورنہ جو بھی اسکو ملتا اسکا گرویدہ ہو جاتا صاف ستھری گفتگو میں ادبی شستگی گھلی ہوتی جو اسکے وسیع مطالعے اور با ذوق ہونے کا اعلان کرتی ۔
         جازبِ نظر تو پہلے ہی دِکھتی تھی اب دمکنے لگی موتیوں کی طرح تاباں ،ستاروں کی طرح ضو فشاں تلّے کی تار ہی بن گئی بات بے بات قہقہے ابلتے سہیلیاں جل جاتیں یار کیا کھانے لگی ہو چوری چوری کوئ ڈائٹ پلان فالو کر رہی ہو ضرور یوگا شروع کر دی ہے نہیں نہیں جم جاتی ہے دوسری وثوق سے سر ہلاتی
ہماری آ نکھوں میں کچھ مہکے ہوۓ سے راز ہیں
ہم سے بھی خوبصورت ہمارے انداز ہیں ۔ ۔ ۔ ۔۔
وہ قلقل کر کے ہنس پڑتی آنکھوں میں مستیاں، گہرائیاں ہلکورے لیتیں چہرے پر شادابیاں سنہری سی گلابیاں گھل گئیں ہر وقت دوڑتی بھاگتی ابھی مالی کے ساتھ پائنچے اڑسے دستانے چڑھائے کھرپا پکڑے اسے گوڈی کا ڈھنگ بتا رہی ہے پھول پتوں سی الجھ رہی ہے ابھی ارے ابھی تو ملازمہ کے ساتھ کونا کونا چمکا رہی تھی پورا گھر باغیچے کے تازہ پھولوں سے سجا دیتی  گھنٹہ بھر میں ٹرے اٹھائے پکوان سجائے اڑوس پڑوس کو کھانے کھلا کر داد سمیٹ رہی ہوتی میاں کے آ نے سے پہلے نہا دھو  سج سنور کر استقبال کو تیار رات کو کتابیں ساتھی ہوتیں کبھی لکھ لیتی کبھی پڑھ لیتی لگتا چوبیس گھنٹوں میں سے چالیس کشید رہی ہے
مگر پتہ نہیں کیا ہوا چپ چپ رہنے لگی ۔کپڑے ملگجے نہانے کا خیال ہی نا رہتا کسلمندی سے اٹھنا ہی محال لگتا مانو کوئی آ سیب چمٹ گیا ہو دنوں میں نچڑ گئ ہمدرد کہتے نظر لگ گئ بچے پریشان گھر والا حیران ، خالہ بی ہول کر سوچتیں ضرور کوئی بڑی بیماری لگ گئ ہے  ۔آ خر ہمارا بھی تجربہ ہے اریب قریب کی سکھیاں پریشان یار بتا تو ہوا کیا ہے  چاہنے والا شوہر پرشان ہو کر سارے ٹیسٹ کروا لایا  مگر بیماری ہوتی تو آ تی وہ تو روگ تھا وہ کب کسی ٹیسٹ میں آ تا ہے بے تکلف دوست مذاقاً بولی کہیں عشق کی بلا تو تیرے پیچھے نہیں پڑ گئ اور اسکا دل اچھل کر حلق میں آ گیا  نہیں نہیں مجھے خود کو سنبھالنا ہو گا مب ہی من میں عہد کیا خود کو سنبھال لوں گی ایک اور عہد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ورنہ بسی بسائ گھرستی اجڑ جاۓ گی بچے بگڑ جائیں گے سہیلیوں کی بات ان کے جاتے ہی سمیٹ دی
اپنے اندر کی ٹوٹی پھوٹی عورت کو ڈانٹا، ڈپٹا، دلاسہ بھی دیا اور اسکے ساتھ مل کر خوب روئ ۔۔۔۔۔۔۔۔رو لے رو لے آ ج دل بھر کر رو لے خود بھی اور اسکو بھی پھر فاتیحہ پڑھ چھوڑیں صبر کر لئیں (دل نے پھر دہائ دی )
اندر کی ضدی عورت بولی کیسے سنبھالوں خود کو کتنی نفیس تھی کتنی شائستہ تھی چار چھ ہر وقت التفات کے منتظر رہتے تھے مگر وہ گھاس نا ڈالتی  پھر اب ۔۔۔۔۔۔اب کیوں اسکے دام میں آ گئ حواسوں پہ سوار کر لیا کبھی اسے شوہر پر ترس آ تا جو اسکے آ رام کے لئیے اپنے ذاتی آ رام کو خاطر میں نا لاتا وہ تو واقعی آ سیب تھا کسی لمحے دماغ سے اسکا خیال محو نا ہوتا شوہر کے ساتھ انتہائی قربت کے لمحوں میں بھی تنہا نا چھوڑتا شوہر اسکی نا آ مادگی پا کر پیچھے ہٹ جاتا وہ اپنی ہی نظروں میں مجرم بن جاتی  کاش منّے تم میری زندگی میں نا آ تے میں کتنی مگن تھی سبک خرام ندی کی مانند وہ بے ربط ہو کر سوچتی کوئ کوئ چخ چخ ہی نہیں تھی روپ بدلتے چہرے کو آ ئینے میں دیکھتے ہوۓ بُدبُداتی دین دنیا کتنے اچھے چل رہے تھے سوچتی پتہ نہیں کیسے درّانا وار گھستا چلا آ یا
آ ندھی تھا اڑاتا چلا گیا
طوفان تھا چھاتا چلا گیا
سیلاب تھا بہاتا چلا گیا
بین کرتی آ نکھوں کے نوحے سنتی تو اپنے اجڑنے کا غم مارے ڈالتا پچھتاوے ڈستے میں ایک پختہ عمر عورت کوئ شرمیلی دوشیزہ تو نا تھی  جو پھسل گئ کیا شیطان تھا جو دین و عاقبت خراب کر گیا نہیں  وہ تو دلبر تھا دل اسکے خلاف ایک حرف نا سوچتا ۔تھک کر خود ہی خود کو بے قصور قرار دینے بیٹھ جاتی می کب اسکی باتوں میں آ تی تھی عمر میں چھوٹا تھا اکثر منّا کہہ دیتی  میرا چھوٹا بھائی تمہارا ہم عمر ہے ہم اسے پیار سے منّا کہتے ہیں ٹھیک ہے مجھے بھی کہہ لو مگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔پیار سے وہ شوخ ہوتا کہتا میں چھ فٹ کا آ دمی تمہارے منّا کہنے پر تنہائی میں اکیلا ہی ہنس پڑتا ہوں وہ کہتی مجھے تم نا کہا کرو میں تم سے بڑی ہوں تو حلق پھاڑ کے بڑی ڈھٹائ سے ہنس دیتا کیا فرق پڑتا ہے بس تم کہنا اچھا لگتا ہے چھلاوہ ہی تھا لمحے لمحے کی رپورٹ لکھتا ابھی ادھر گیا تھا آ ج گھر میں مستری لگایا ہے اب بجلی کا کام کروا رہا ہوں اب گاؤں سے کچھ برادری والے آ ے بیٹھے ہیں بچوں کو اسکول چھوڑنے گیا تھا دوست آ یا ہوا ہے یونی فیلو چاۓ کا کپ اسکو بھی ارسال کردیتا بیوی بچوں کے ساتھ میکے گئ ہے آ ج یہ کرتا لایا ہو نیلے رنگ کا دیکھو کیسا ہے عید پہ پہنوں گا پزا ہٹ پہ ہوں فیملی کے ساتھ  دوستوں کے ساتھ لنچ کیا کے ۔ایف ۔سی میں تصویر ارسال کر دیتا آج بیوی نے لنچ بنا کر دیا دیکھو  آ ج دیر ہو گئی صبح اب لنچ میں کیلے کھاؤں گا تم بھی آ جاؤ شرارت سے ہنستا آ ج والدہ کو لے کر ڈاکٹر کے پاس جانا ہے چھوٹی سے چھوٹی بات شیئر کرتا شائد اپنا عادی بنا رہا تھا وہ سر دھنتی متاثر ہوتی رہتی کتنا فرمابردار ہے کئیرنگ ہے لونگ ہے  دل تھوڑا تھوڑا بے ایمان ہونا شروع ہو گیا وہ خود کو دلاسہ دیتی نہیں یہ تو بس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ ۔۔ ۔ ۔اچھا شاید بوائے فرینڈ اسکو کہتے ہیں ورنہ دونوں کی زندگی بڑی سیٹ ایک دھارے پر چل رہی تھی کہیں کمی نہ تھی نا ہی بیشی کی گنجائش
مگر وہ کسی اور ہی دھن میں تھا آ فس پہنچتے ہی اسے بھی انگیج کر لیت

وہ محبتوں اور توجہ کے بوجھ سے دبی دبی رہنے لگی مگر عقل ابھی پلِ صراط پہ کھڑی تھی جنت دوزخ صاف نظر آ رہی تھیں وہ معنی خیز شعر ارسال کرتا وہ چاہے جانے کے احساس سے بہک گئ شعروں سے بڑھ کر پورے پورے گانے بھیج دیتا جس دن بھیجا
کون کہتا ہے کہ محبت کی زبان ہوتی ہے
یہ تو حقیقت ہے نگاہوں سے بیان ہوتی ہے
بس اس دن وہ لڑھک گئ جینا دو بھر ہو گیا سات سروں کے رنگین دریا میں بہ گئ ایک سیکنڈ بھی اسکا خیال ذہن سے نا اترتا  ایسے جام پلاے  ایسی مدھ پلائ کہ مدہوش ہی ہو گئ مستی میں ڈولتی رہتی پاؤں کہیں رکھتی پڑتا کہیں دودھ ابل ابل کر بہہ جاتا ہانڈی روز جل جاتی بچوں کے ضروری کام بھی بھولنے لگی شوہر تو اپنا گزارا چلا لیتا مگر بچے چیخ پڑتے

 ممّا آج یونیفارم استری نہیں کروائے ٹائ نہیں ہے ۔موزے کی جوڑی نہیں مل رہی ۔اف آ ج پھر اسکول بس چھوٹ گئی چھوٹی لاڈلی بیٹی منہ بسورتی کوئ بات نہیں ہم اپنی فیری کو آ ج خود چھوڑ آ تے ہیں گاڑی کی چابی اٹھاتی شوہر کی سرد نگاہوں سے بچتی واپسی پہ سبزی پھل بھی لیتی آ ؤں گی۔ مگر وہ ایک سیکنڈ بھی ذہن سے محو نا ہوتا  بن پئے ہی مست رہتی نشے میں مخمور آ آنکھیں کھل کر نا دیتیں کسلمندی سے پڑی مہکتی رہتی ملازمہ آ تی مارے باندھے کام نمٹاتی یہ جا وہ جا ساتھ حیران ہو کر سوچتی باجی کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے ۔پڑوسن پوچھتی بھابھی بڑے دن ہو گۓ آ پ کے ہاتھوں کی بریانی کھاۓ دوسری کہتی طاہر کو  آ پکے ہاتھ کی ربڑی بہت پسند ہے تیسری چپلی کباب یاد کر کے چٹخارہ لیتی وہ پہلو تہی کر جاتی اسکے خیال میں رہنا اچھا لگتا اسکی لا یعنی باتیں مزہ دینے لگیں وہ ہر روز ایک شعر اسکے نام کرتا
مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر پھر پتہ نہیں اسے کیا ہوا ایکدم پیچھے ہٹ گیا نا صبح کا سلام نا پھولوں کے تحفے نا لمحے لمحے کی تفصیل سب بتانا بھول جاتا وہ سمجھی اکلوتا ہے ذمہ داریوں میں پھنسا ہے ٹائم نہیں ملا ہو گا  وقت کاٹے نہ کٹتا جو موٹر وے پہ سفر کے دوران  ہر گھنٹے بعد میسج کرتا اب یہاں ہوں اب وہاں ہوں یکسر  نظر انداز کردیتاوہ جلے پیر کی بلّی بنی گھومتی رہتی باغ باغیچہ ویران ہو گیا مگر جب دل کی بستی اجڑ رہی ہو تو بے زبان کی کون سنے میسج کم ہوۓ پھر بند ہوگئے اسے پنکھے لگ گۓ خود ہی مجبور ہو کے حا پوچھتی مصروفیت بتا کر ٹال دیتا کوئ اچھوتا سا شعر جواب کی آ س  میں بھیج دیتی وہ واہ لکھ کر گونگا ہو جاتاپہلے رابطے کم ہوۓ پھر راستے گم ہوۓ جو نام فرینڈز لسٹ میں سب سے اوپر جگمگاتا تھا ہوتے ہوتے سب سے نیچے چلا گیا وہ بے بسی سے دیکھتی رہی سو دفعہ فون اٹھاتی ،رکھتی میسج کروں یا نہیں انا بھی بیچ میں کھڑی ہو جاتی مگر عشق میں مرضیاں نہیں چلتیں اسے اسی کا بھیجا ایک شعر یاد آ گیا سو حال احوال کا پیغام لکھ دیا اسنے دیکھ کر رکھ دیا دلِ خوش فہم نے پھر ہمت کی جواباً  بڑی سختی سے کہا گیا میری ماں ایڈمٹ ہیں ہوسپٹل جارہا ہوں اس دن اپنی ذلت کا احساس شدت سے ہوا اب رابطہ نہیں کروں گی اس نے پکا عہد کر لیا اور خوب نبھایا ۔اس سے کوئی ہوسانہ محبت تو تھی نہیں جو قرب کی خواہش جاگتی  کھائی کھیلی عورت تھی شاید اسکو عشق کہتے ہیں وہ خود کو مطمۂن کرتی مگر دل نے کون کون سی دہائیاں نہیں دیں کیسے کیسے ضد نہیں کی مگر آ خری دن والی ذلت یاد کر کے دل کو سنبھال لیتی ۔گھرستی والی تھی کچھ نہ کچھ سنبھل ہی گئ مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کبھی ایسی ہوک اٹھتی کہ دل دیدار چاہتا ڈی پی کھول کے دیکھتی آ ج اس نے کیا شیئر کیا سب  پڑھتی کبھی لگتا یہ میسج میرے نام کا ہے مگر دماغ سے کیا عہد خوب نبھایا اب نہیں دھوکہ کھانا ۔وہ بھی شاید جان چھوٹنے پر مطمئن ہو گیاہے وہ گتھیاں سلجھاتی رہتی ۔آ ج موسم بڑا اچھا ہے اسکے شہر کے موسم کا احوال پاتے ہی سوچتی آ ج ضرور میسج کرے گا۔آج بہت ٹھنڈ ہے چاۓ کافی پیتے ہوئے یاد کیا ہوگا انبکس کھول کھول کر چیک کرتی مگر وہ تو کورا پڑا ہوتا کیسی کیسی گلاب رتیں گزر گئیں مگر وہ تو پتھر ہی رہا اب موسمِ برسات آ یا ہے اسے بھی بہت کچھ یاد دلائے گا دلِ خوش امید نے راہ دکھائی پچھلی برسات میں ہی تو ملا تھا کتنی بارشیں تھیں جو ایک دوسرے کو دکھا دکھا کر شیئر کی تھیں اور ایک ساتھ دیکھی تھیں مگر ایک ایک کر کے بارش والے سارے دن گزر گئے آ خر موسمِ برسات ہی گزر گیا اس پتھر میں جونک نا لگی وہ  بے دم ہوتے دل کو بہلانے میں کامیاب ہو ہی گئی  مگر سال بھر کا سفر صدیوں میں طے ہوا پورے گھر کا شیرازہ ہی بکھر گیا رستے ہوۓ زخموں پر کھرنڈ آ گیا۔حیرانگی اب بھی نا جاتی پتہ نہیں کیا چاہتا تھا خود ہی دراّتا ہوا آ یا دل کی بستی اور گھر گھرستی سب تہ تیغ کر ڈالی اور خود ہی کنارہ کش ہو گیا ایک دن  شیئر کیا ہوا تھ
ہوسکے تو سبب تلاش کرو
کوئ یونہی خفا نہیں ہوتا
وہ پھر دھوکہ کھا گئ شاید میرے لیئے لکھا ہو مگر غلطی کہاں ہے میری بہت سوچنے پر بھی یاد نہیں آ یا وہ جب بھی کچھ دوستوں کو شیئر کرتا وہ مرتے مرتے جی اٹھتی شاید آ ج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اس آ ج نے نا آ نا تھا نا آ ئ حیران ہو ہوکے سوچتی  آ نکھیں مل مل کےخو کو  دیکھتی یہ میں ہوں چھ ماہ میں ہی خوبصورت عمارت ملبے کا ڈھیر بن گئی ہڈیاں نکل آ ئیں آ نکھوں میں اداسیوں نے ایسے ڈیرے ڈالے کہ کنّی کی طرح چمکتی آ نکھوں میں کوئ رنگ ہی نا بچا نا کالی نا کتھئ  وہ اداس رنگ آ آنکھیں لگتیں جو کبھی جگنو کی طرح جگمگاتی تھیں ہیرے کی طرح جگراتی تھیں اب مٹیالے دیئے لگتے ۔چپکے چپکے اللہ سے شکوہ کرتی قسمت میں نہیں تھا تو کوسوں دور سے ملایا کیوں ۔ادھیڑ بن میں لگی رہتی بدعا بھی تو نہیں دے سکتی جو پیارے ہوں انکے لئیے بدعا نہیں نکلتی بعینہ جیسے جبرائیل کے پر جلتے ہیں اسکی چار بہنوں چار بیٹیوں کا خیال آ جاتا بوڑھے ماں باپ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور بیوی بیچاری کا کیا قصور ؟ان سب کی واحد امید وہی تو تھا اپنے کُرلاتے دل کی ایک نا سنتی بد دعائیں زبان تک آ تے آ تے دعاؤں کا روپ دھار لیتیں ۔
          ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔مگر اللہ کا انصاف و حساب تو اسی دنیا میں چکانا ہو گا نا دل قہقہہ لگاتا چاہے بہن سے یا بیٹی سے ۔نہیں خدایا !وہ کانپ جاتی جو تکلیف میں نے اٹھائ وہ اس سے محفوظ رہے
ببانگِ دہل قطع تعلقی کا اعلان کر کے معلمع چڑھا لیا کچھ سنبھل گئ مگر جو بنیادیں اندر سے ہلی تھیں انہوں نے باہر کی عمارت کو کھنڈر میں تبدیل کرنا شروع کر دیا ہے وہ  ٹوٹ ٹوٹ گئی آئرن لیڈی اب ٹوٹی پھوٹی عورت دِکھتی ہے اس نے خود ترسی کی قید میں آ تے ہوئے سوچا۔ اسے لگتا ہے روز روز  خود کو سنبھال لینے کا ورد کرتے رہنے سے ایک دن سنبھل ہی جاؤں گی۔ ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔کاش ایک بار آ کر بتا دے کہ اس نے میرے ساتھ یہ سب کیوں کیا  تو کرچیاں سمیٹنے میں آ سانی ہو جائے ایک تھکا تھکا سا سانس نکلا اس کے منہ سے
لمحے لمحے کی آنکھ پرنم ہے
کون کہتا ہے کہ وقت مرہم ہے

منگل، 23 اگست، 2016

ڈرپوک لڑکی (نظم) زارا مظہر

زارا مظہر

ڈرپوک لڑکی 

ایک دن وہ کہنے لگی!
میری حسرت ہے !
ایک کپ چائے!!!
آ پکے ساتھ پینے کی!
آ پکے خیال میں جینے کی!
کتنا رومانٹک ہے نا ! 
چاۓ آ پ کے ساتھ پینا !!!
وہ بولا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس میں 
کیا مشکل ہے !
آ جاؤ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
آ ج ہی پی لیتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
سڑک کنارے کیفے میں ملتے ہیں۔ ۔ ۔   
وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
۔ ۔   ۔ ۔ ۔ ۔   ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ چپ رہی !
بولی تو رو دی ۔ ۔ ۔ ۔ 
جو کام خواب میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
ممکن نہیں !
وہ حقیقت کا روپ ۔ ۔ ۔ 
دھارے کیسے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
وہ بولا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔   
خواب؟؟؟؟؟
ہاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔   
چاۓ ٹیبل پہ رکھنا !
تکلفاً چینی ڈالنا!!!
ہلانا،ملانا،گھلانا !!!
چمچ کی موسیقی سے ۔ ۔ ۔
دائرے بنانا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہر ہر دائرے میں ۔ ۔ ۔ ۔ 
سو سو بھنور بنانا ۔ ۔ ۔ 
ہر بھنور میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دھڑکنوں کاشور مچانا ۔ ۔ ۔ ۔ !
پلکیں گِرانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!
پلّو اُٹھانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  
اضطرار میں ۔ ۔ ۔ ۔  
انگلیاں باہم مِلانا!
ہموار سانس میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دھونکنی چلانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
پیوستہ ہونٹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
کپکپانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نم ہوتی مٹھی میں ۔ ۔ ۔ ۔ 
ٹشو دبانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
اف کپوں کا لڑکھڑانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
ایک دوسرے سے ٹکرانا !
اور ۔ ۔ ۔  ۔اور ۔ ۔ ۔ ۔
بوجھل پن سے ۔ ۔ ۔ ۔ 
آ نکھ کُھل جانا !!!!!!!!!!!!
اف اف ۔ ۔ ۔ جو بات خواب میں ممکن نا ہو !
وہ حقیقت میں ؟؟؟؟؟

بدھ، 20 اپریل، 2016

جگنو انٹرنیشنل کی دوسری سالانہ تقریب ِ تقسیم ایوارڈ شعری مجموعہ ”نقشِ اول“ کی تقریب رونمائی اور عالمی مشاعرہ، صدارت اردو تحریک عالمی۔برطانیہ کے صدر ڈاکٹر عبدالغفار نے جنکہ کیپٹن (ر)عطا محمد،ایگزیکٹو ڈائریکٹر الحمرا آرٹس کونسل،لاہور مہمانِ خصوصی تھے

                              
علمی،ادبی، سماجی و ثقافتی  تنظیم،جگنو انٹر نیشنل لاہورکے زیر اہتمام  سالانہ تقریبِ تقسیمِ ایوارڈ و مشاعرہ کا انعقاد ہوا۔جس میں پاکستان اور بیرون از پاکستان اہل علم و دانش اور شعراء کی بھاری تعداد نے شرکت کی۔
تقر یب کی صدارت ڈاکٹر عبدالغفار عزم بانی و صدر اردو تحریک عالمی یو۔کے نے فرمائی جبکہ مہمانِ خصوصی کیپٹن عطا محمد خاں، ایگزیکٹو ڈائریکٹر الحمرا آرٹس کونسل،لاہورتھے۔نظامت کے فرائض ممتاز شاعرہ و ادیبہ، ایڈیٹر احساس،جرمنی،چیف ایگزیکٹوجگنو انٹرنیشنل ایم زیڈ کنولؔ  نے بحسن و خوبی ادا کئے۔ 
پروگرام کا آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے کیا گیا۔ جس کی سعادت گولڈ میڈلسٹ قاری احمد ہاشمی کا نصیب بنی۔جبکہ نعتِ رسول مقبول ﷺ نوجوان  انعام یافتہ نعت خواں غنا فاطمہ نے اپنی پُر سوز آواز میں پیش کی۔ مہمانوں کو پھولوں کے گلدستے پیش کر کے ان کا استقبال کیا گیا۔

ہفتہ، 16 اپریل، 2016

ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی ،ایک پیاری شخصیت، ایک پیارا شاعر۔۔ سہیل انجم



علی بھائی (ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی) سے پہلی ملاقات کب ہوئی تھی اور کیسے ہوئی تھی یہ تو یاد نہیں لیکن میں نے پندرہ بیس سال کے تعلق کے عرصے میں ان کو ہمیشہ یکساں پایا۔ وہی شرافت، وہی شائستگی، وہی خندہ پیشانی، وہی خوش اخلاقی، وہی انکساری، وہی حسن سلوک اور وہی محبت اور وہی دوستانہ انداز۔ ان تمام اوصاف میں بیشی تو پائی لیکن کبھی کمی نہیں پائی۔ ان سے ملاقات ان کے دولت خانہ پر بھی ہوئی، آل انڈیا ریڈیو میں بھی ہوئی اور دوسرے مقامات پر بھی ہوئی۔ ہمیشہ تپاک سے ملنا اور کھل کر گفتگو کرنا ان کی فطرت اور طبیعت کا خاصہ ہے۔ وہ جس قدر قابل اور با صلاحیت ہیں اسی قدر منکسر المزاج بھی ہیں۔ لیکن ان کی ظاہری شخصیت بڑی ہی غیر متاثر کن ہے۔ اگر وہ پہلی بار کسی سے ملیں تو وہ ان سے کوئی اثر قبول نہیں کرے گا۔ لیکن ملاقات کا عرصہ جوں جوں بڑھتا جائے گا ان کے مزاج کی خصوصیات ابھرتی جائیں گی۔ اور پھر وہی شخص جس نے پہلی ملاقات میں ان کو نظرانداز کر دیا تھا ان کا احترام کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔

پیر، 1 فروری، 2016

ہے عجب شہ غرورِ شہرت بھی ۔۔ انجم عثمان

کچھ تو کم ہے تمہیں محبت بھی 
بے رخی ہے تمہاری عادت بھی
نہ خدا مل سکا مجھے، نہ صنم 
رائیگاں عشق بھی! عبادت بھی!
دامنِ دل میں کم نصیبوں کے 
آتش_سوز_غم ہے! وحشت بھی!
لاکھ دامن بچایا میں نے لیکن 
جان لے کر ٹلی محبت بھی
دین و ایمان بیچنا ہی پڑے 
کفر تک لے چلی ہے عسرت بھی
ہے محبت کی دوسری صورت 
اور کیا ہے بھلا یہ نفرت بھی!
تم ہوےء ہفت آسمان نشیں 
ہے عجب شہ غرورِ شہرت بھی
ہے تعلق عجیب سا مجھ سے 
تم کو الفت بھی ہے عداوت بھی
عاشقی ایک کار_لا حاصل 
ہے مکیں دل میں تیری حسرت بھی
ہم کہ بیمار_عشق ہیں انجم 
نہ ہوئی تم سے تو عیادت بھی

جمعہ، 15 جنوری، 2016

برف کہساروں پر اب کے اس قدر پگهلی ۔۔ انور زاہدی

انور زاہدی
موڑ پہ گلی کے اک گمشدہ کہانی تهی
ڈهونڈتا رہا جس کو عہد کیا جوانی تهی
تب کبهی نہ سوچا تها وقت ہوگا اک دریا
اب پتہ چلا جا کے وہ گهڑی تو فانی تهی
برف کہساروں پر اب کے اس قدر پگهلی
وقت اس طرح گزرا بات جیسے پانی تهی
یادیں بن گئیں باتیں عہد ہوگئے قصے
جو گزر گیا ہم میں وہ وفا پرانی تهی
عہد یاد اور قصے مت کهنگا لا کر انور
ٹیس بچ گئی باقی درد کی نشانی تهی