ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

بدھ، 31 اگست، 2016

کوئی صبحِ آ سودہ ،خدایا، کوئ شامِ اعتدال ۔۔ زارا مظہر معاشرے کی حالتِ زار پر نوحہ کناں ہیں

زارا مظہر 

یا اللہ
 ہر طرف ایک سہم کی صورتحال کیوں ہے ،
،کیوں زندگیوں کا کوئ گوشہ امن میں نہیں ہے ۔ایک چھینا چھپٹی ، بد امنی ،اور لوٹ کھسوٹ کا بازار کیوں گرم ہے ۔کسی زمانے میں اغوا اور ریپ،اور اغوا برائے تاوان کی کہانیاں دہرائی جاتی تھیں لگتا ہے زمانے لد گۓ یا برائی کے عفریت کو منہ کا ذائقہ بدلنا ہے ۔بات  معصوم بچوں کے اغوا اور کاٹ چھانٹ پر جا پہنچی  ہے اسکی سراسیمگی پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیۓ بیٹھی ہے چھوٹے بچوں کی مائیں سچ مچ کے عذاب میں مبتلا ہیں جب تک بچے اسکول میں، ماؤں کے دل دھکڑ پکڑ دھکڑ پکڑ میں مبتلا ہیں اسکول سے واپسی پر صبح کے کاموں کو لپیٹتی مائیں بچوں کو نہلا دھلا اور کھانا کِھلا کر فارغ ہویئیں تو اب بچوں نے دینی تعلیمات کے لئیے جانا ہے ( لوئر مڈل کلاس اور نیچے کی ساری کیٹیگریز ) کون چھوڑے گا بھلے گلی کے کونے میں ہی جانا ہے بچے خوف زدہ جانے سے انکاری ، اب ماں دو چھوٹوں کو کندھے سے لگائےاور دو کو خوف کے کندھے سے لگائےچھوڑ کر آ ئے گی واپس خود نہیں آ نا کی تاکید ایک سو ایک دفعہ دہراتی واپس ہو گی ۔کندھے والے کندھے پر ٹنگے ٹنگے تھک  گئےہیں انکے چڑچڑے پن کو سہلاتی ،آ سودہ کرتی خود کب آ رام کرے گی ۔چڑچڑ نہیں کرے گی تو کیا پُھلجھڑیاں چھوٹیں گی ۔؟ ذہنی تفکرات ،معاشی و معاشرتی بوجھ اور مسلسل بے آ رامی ، زندگی کی گاڑی کا پہیہ کتنا مشکل ہے نا ۔
بچوں کے ذکر سے وہ شامی،بے حس و حرکت مٹی کا ڈھیر بچہ یاد اگیا  جسکی ویڈیو گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہو کے اہلِ دل ونظر کو خون کے آ نسو رُلاتی رہی وہ گم سم بچہ سب کے حواس گم کئے ہوئے ہے ۔کیا دیکھ لیا اس نے ،کس جہانِ لاہوت کو چھو آ یا ہے کہ اب بولنا ہی نہیں چاہ رہا ۔خاموش ، گپ چپ ،خالی آ نکھ ،خالی دل کے ساتھ مثلِ روبوٹ  کیسا ٹھنڈا ٹھار دِکھتا رہا ۔
آ ج یہ  دھماکہ، کل وہاں آ پریشن ،کہیں توڑ پھوڑ کہیں لوٹ مار کا بازار گرم ہے بے حِسی معاشرے میں اتنی در آ ئ ہے کہ کسی کی جان جا رہی ہے کسی کا عمر بھر کا اثاثہ لُٹ رہا ہے مگر عاقبت بُھولے لوگ لوٹنے میں مصروف ہیں ۔پتہ نہیں دنیا میں اب کبھی امن کی واپسی ممکن بھی ہے یا وہ اس جہان فانی سے رخصت ہو چکا ہے فاتحہ پڑہی جا چکی ہے اس پر شاید یا شاید قربِ قیامت کی نشاندہی ہیں یہ چھوٹی چھوٹی قائم ہوتی قیامتیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔شائد ؟؟؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں