ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

بدھ، 31 اگست، 2016

کوئی صبحِ آ سودہ ،خدایا، کوئ شامِ اعتدال ۔۔ زارا مظہر معاشرے کی حالتِ زار پر نوحہ کناں ہیں

زارا مظہر 

یا اللہ
 ہر طرف ایک سہم کی صورتحال کیوں ہے ،
،کیوں زندگیوں کا کوئ گوشہ امن میں نہیں ہے ۔ایک چھینا چھپٹی ، بد امنی ،اور لوٹ کھسوٹ کا بازار کیوں گرم ہے ۔کسی زمانے میں اغوا اور ریپ،اور اغوا برائے تاوان کی کہانیاں دہرائی جاتی تھیں لگتا ہے زمانے لد گۓ یا برائی کے عفریت کو منہ کا ذائقہ بدلنا ہے ۔بات  معصوم بچوں کے اغوا اور کاٹ چھانٹ پر جا پہنچی  ہے اسکی سراسیمگی پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیۓ بیٹھی ہے چھوٹے بچوں کی مائیں سچ مچ کے عذاب میں مبتلا ہیں جب تک بچے اسکول میں، ماؤں کے دل دھکڑ پکڑ دھکڑ پکڑ میں مبتلا ہیں اسکول سے واپسی پر صبح کے کاموں کو لپیٹتی مائیں بچوں کو نہلا دھلا اور کھانا کِھلا کر فارغ ہویئیں تو اب بچوں نے دینی تعلیمات کے لئیے جانا ہے ( لوئر مڈل کلاس اور نیچے کی ساری کیٹیگریز ) کون چھوڑے گا بھلے گلی کے کونے میں ہی جانا ہے بچے خوف زدہ جانے سے انکاری ، اب ماں دو چھوٹوں کو کندھے سے لگائےاور دو کو خوف کے کندھے سے لگائےچھوڑ کر آ ئے گی واپس خود نہیں آ نا کی تاکید ایک سو ایک دفعہ دہراتی واپس ہو گی ۔کندھے والے کندھے پر ٹنگے ٹنگے تھک  گئےہیں انکے چڑچڑے پن کو سہلاتی ،آ سودہ کرتی خود کب آ رام کرے گی ۔چڑچڑ نہیں کرے گی تو کیا پُھلجھڑیاں چھوٹیں گی ۔؟ ذہنی تفکرات ،معاشی و معاشرتی بوجھ اور مسلسل بے آ رامی ، زندگی کی گاڑی کا پہیہ کتنا مشکل ہے نا ۔
بچوں کے ذکر سے وہ شامی،بے حس و حرکت مٹی کا ڈھیر بچہ یاد اگیا  جسکی ویڈیو گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہو کے اہلِ دل ونظر کو خون کے آ نسو رُلاتی رہی وہ گم سم بچہ سب کے حواس گم کئے ہوئے ہے ۔کیا دیکھ لیا اس نے ،کس جہانِ لاہوت کو چھو آ یا ہے کہ اب بولنا ہی نہیں چاہ رہا ۔خاموش ، گپ چپ ،خالی آ نکھ ،خالی دل کے ساتھ مثلِ روبوٹ  کیسا ٹھنڈا ٹھار دِکھتا رہا ۔
آ ج یہ  دھماکہ، کل وہاں آ پریشن ،کہیں توڑ پھوڑ کہیں لوٹ مار کا بازار گرم ہے بے حِسی معاشرے میں اتنی در آ ئ ہے کہ کسی کی جان جا رہی ہے کسی کا عمر بھر کا اثاثہ لُٹ رہا ہے مگر عاقبت بُھولے لوگ لوٹنے میں مصروف ہیں ۔پتہ نہیں دنیا میں اب کبھی امن کی واپسی ممکن بھی ہے یا وہ اس جہان فانی سے رخصت ہو چکا ہے فاتحہ پڑہی جا چکی ہے اس پر شاید یا شاید قربِ قیامت کی نشاندہی ہیں یہ چھوٹی چھوٹی قائم ہوتی قیامتیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔شائد ؟؟؟

جمعرات، 25 اگست، 2016

ٹوٹی پھوٹی عورت ۔ زارا مظہر

تحریر: زارا مظہر

ٹوٹی پھوٹی عورت


وہ اپنی حلقہ احباب میں آ ئرن لیڈی کے نام سے جانی جاتی تھی خوش حالی اور آ سودگی چہرے اور عادات سے ظاہر ہوتی تھی بہت خوب صورت نہیں تھی مگر فراغت نے چہرے پر بارعب سی ملاحت،طمانیت اور لاپرواہی گھول دی تھی۔
لائق فائق ،خوبصورت بچے،چاہنے والا ویل سیٹلڈ شوہر ،سجا سجایا گھر ایک عورت کو اور کیا چاہیے۔دیکھنے والےدیکھتے ہر گزرتا دن اسکو ایک مسحور کن تابانی بخش رہا تھا ہر روز ایک دن چھوٹی ہو جاتی خوش مزاجی انگ انگ سے پھوٹتی اپنی دنیا میں مست، ملنگ اکثر لوگ سمجھتے مغرور ہے مگر وہ تو احساسِ طمانیت تھا جو اسے یہ سارے الوہی رنگ عطا کر گیا تھا ورنہ جو بھی اسکو ملتا اسکا گرویدہ ہو جاتا صاف ستھری گفتگو میں ادبی شستگی گھلی ہوتی جو اسکے وسیع مطالعے اور با ذوق ہونے کا اعلان کرتی ۔
         جازبِ نظر تو پہلے ہی دِکھتی تھی اب دمکنے لگی موتیوں کی طرح تاباں ،ستاروں کی طرح ضو فشاں تلّے کی تار ہی بن گئی بات بے بات قہقہے ابلتے سہیلیاں جل جاتیں یار کیا کھانے لگی ہو چوری چوری کوئ ڈائٹ پلان فالو کر رہی ہو ضرور یوگا شروع کر دی ہے نہیں نہیں جم جاتی ہے دوسری وثوق سے سر ہلاتی
ہماری آ نکھوں میں کچھ مہکے ہوۓ سے راز ہیں
ہم سے بھی خوبصورت ہمارے انداز ہیں ۔ ۔ ۔ ۔۔
وہ قلقل کر کے ہنس پڑتی آنکھوں میں مستیاں، گہرائیاں ہلکورے لیتیں چہرے پر شادابیاں سنہری سی گلابیاں گھل گئیں ہر وقت دوڑتی بھاگتی ابھی مالی کے ساتھ پائنچے اڑسے دستانے چڑھائے کھرپا پکڑے اسے گوڈی کا ڈھنگ بتا رہی ہے پھول پتوں سی الجھ رہی ہے ابھی ارے ابھی تو ملازمہ کے ساتھ کونا کونا چمکا رہی تھی پورا گھر باغیچے کے تازہ پھولوں سے سجا دیتی  گھنٹہ بھر میں ٹرے اٹھائے پکوان سجائے اڑوس پڑوس کو کھانے کھلا کر داد سمیٹ رہی ہوتی میاں کے آ نے سے پہلے نہا دھو  سج سنور کر استقبال کو تیار رات کو کتابیں ساتھی ہوتیں کبھی لکھ لیتی کبھی پڑھ لیتی لگتا چوبیس گھنٹوں میں سے چالیس کشید رہی ہے
مگر پتہ نہیں کیا ہوا چپ چپ رہنے لگی ۔کپڑے ملگجے نہانے کا خیال ہی نا رہتا کسلمندی سے اٹھنا ہی محال لگتا مانو کوئی آ سیب چمٹ گیا ہو دنوں میں نچڑ گئ ہمدرد کہتے نظر لگ گئ بچے پریشان گھر والا حیران ، خالہ بی ہول کر سوچتیں ضرور کوئی بڑی بیماری لگ گئ ہے  ۔آ خر ہمارا بھی تجربہ ہے اریب قریب کی سکھیاں پریشان یار بتا تو ہوا کیا ہے  چاہنے والا شوہر پرشان ہو کر سارے ٹیسٹ کروا لایا  مگر بیماری ہوتی تو آ تی وہ تو روگ تھا وہ کب کسی ٹیسٹ میں آ تا ہے بے تکلف دوست مذاقاً بولی کہیں عشق کی بلا تو تیرے پیچھے نہیں پڑ گئ اور اسکا دل اچھل کر حلق میں آ گیا  نہیں نہیں مجھے خود کو سنبھالنا ہو گا مب ہی من میں عہد کیا خود کو سنبھال لوں گی ایک اور عہد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ورنہ بسی بسائ گھرستی اجڑ جاۓ گی بچے بگڑ جائیں گے سہیلیوں کی بات ان کے جاتے ہی سمیٹ دی
اپنے اندر کی ٹوٹی پھوٹی عورت کو ڈانٹا، ڈپٹا، دلاسہ بھی دیا اور اسکے ساتھ مل کر خوب روئ ۔۔۔۔۔۔۔۔رو لے رو لے آ ج دل بھر کر رو لے خود بھی اور اسکو بھی پھر فاتیحہ پڑھ چھوڑیں صبر کر لئیں (دل نے پھر دہائ دی )
اندر کی ضدی عورت بولی کیسے سنبھالوں خود کو کتنی نفیس تھی کتنی شائستہ تھی چار چھ ہر وقت التفات کے منتظر رہتے تھے مگر وہ گھاس نا ڈالتی  پھر اب ۔۔۔۔۔۔اب کیوں اسکے دام میں آ گئ حواسوں پہ سوار کر لیا کبھی اسے شوہر پر ترس آ تا جو اسکے آ رام کے لئیے اپنے ذاتی آ رام کو خاطر میں نا لاتا وہ تو واقعی آ سیب تھا کسی لمحے دماغ سے اسکا خیال محو نا ہوتا شوہر کے ساتھ انتہائی قربت کے لمحوں میں بھی تنہا نا چھوڑتا شوہر اسکی نا آ مادگی پا کر پیچھے ہٹ جاتا وہ اپنی ہی نظروں میں مجرم بن جاتی  کاش منّے تم میری زندگی میں نا آ تے میں کتنی مگن تھی سبک خرام ندی کی مانند وہ بے ربط ہو کر سوچتی کوئ کوئ چخ چخ ہی نہیں تھی روپ بدلتے چہرے کو آ ئینے میں دیکھتے ہوۓ بُدبُداتی دین دنیا کتنے اچھے چل رہے تھے سوچتی پتہ نہیں کیسے درّانا وار گھستا چلا آ یا
آ ندھی تھا اڑاتا چلا گیا
طوفان تھا چھاتا چلا گیا
سیلاب تھا بہاتا چلا گیا
بین کرتی آ نکھوں کے نوحے سنتی تو اپنے اجڑنے کا غم مارے ڈالتا پچھتاوے ڈستے میں ایک پختہ عمر عورت کوئ شرمیلی دوشیزہ تو نا تھی  جو پھسل گئ کیا شیطان تھا جو دین و عاقبت خراب کر گیا نہیں  وہ تو دلبر تھا دل اسکے خلاف ایک حرف نا سوچتا ۔تھک کر خود ہی خود کو بے قصور قرار دینے بیٹھ جاتی می کب اسکی باتوں میں آ تی تھی عمر میں چھوٹا تھا اکثر منّا کہہ دیتی  میرا چھوٹا بھائی تمہارا ہم عمر ہے ہم اسے پیار سے منّا کہتے ہیں ٹھیک ہے مجھے بھی کہہ لو مگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔پیار سے وہ شوخ ہوتا کہتا میں چھ فٹ کا آ دمی تمہارے منّا کہنے پر تنہائی میں اکیلا ہی ہنس پڑتا ہوں وہ کہتی مجھے تم نا کہا کرو میں تم سے بڑی ہوں تو حلق پھاڑ کے بڑی ڈھٹائ سے ہنس دیتا کیا فرق پڑتا ہے بس تم کہنا اچھا لگتا ہے چھلاوہ ہی تھا لمحے لمحے کی رپورٹ لکھتا ابھی ادھر گیا تھا آ ج گھر میں مستری لگایا ہے اب بجلی کا کام کروا رہا ہوں اب گاؤں سے کچھ برادری والے آ ے بیٹھے ہیں بچوں کو اسکول چھوڑنے گیا تھا دوست آ یا ہوا ہے یونی فیلو چاۓ کا کپ اسکو بھی ارسال کردیتا بیوی بچوں کے ساتھ میکے گئ ہے آ ج یہ کرتا لایا ہو نیلے رنگ کا دیکھو کیسا ہے عید پہ پہنوں گا پزا ہٹ پہ ہوں فیملی کے ساتھ  دوستوں کے ساتھ لنچ کیا کے ۔ایف ۔سی میں تصویر ارسال کر دیتا آج بیوی نے لنچ بنا کر دیا دیکھو  آ ج دیر ہو گئی صبح اب لنچ میں کیلے کھاؤں گا تم بھی آ جاؤ شرارت سے ہنستا آ ج والدہ کو لے کر ڈاکٹر کے پاس جانا ہے چھوٹی سے چھوٹی بات شیئر کرتا شائد اپنا عادی بنا رہا تھا وہ سر دھنتی متاثر ہوتی رہتی کتنا فرمابردار ہے کئیرنگ ہے لونگ ہے  دل تھوڑا تھوڑا بے ایمان ہونا شروع ہو گیا وہ خود کو دلاسہ دیتی نہیں یہ تو بس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ ۔۔ ۔ ۔اچھا شاید بوائے فرینڈ اسکو کہتے ہیں ورنہ دونوں کی زندگی بڑی سیٹ ایک دھارے پر چل رہی تھی کہیں کمی نہ تھی نا ہی بیشی کی گنجائش
مگر وہ کسی اور ہی دھن میں تھا آ فس پہنچتے ہی اسے بھی انگیج کر لیت

وہ محبتوں اور توجہ کے بوجھ سے دبی دبی رہنے لگی مگر عقل ابھی پلِ صراط پہ کھڑی تھی جنت دوزخ صاف نظر آ رہی تھیں وہ معنی خیز شعر ارسال کرتا وہ چاہے جانے کے احساس سے بہک گئ شعروں سے بڑھ کر پورے پورے گانے بھیج دیتا جس دن بھیجا
کون کہتا ہے کہ محبت کی زبان ہوتی ہے
یہ تو حقیقت ہے نگاہوں سے بیان ہوتی ہے
بس اس دن وہ لڑھک گئ جینا دو بھر ہو گیا سات سروں کے رنگین دریا میں بہ گئ ایک سیکنڈ بھی اسکا خیال ذہن سے نا اترتا  ایسے جام پلاے  ایسی مدھ پلائ کہ مدہوش ہی ہو گئ مستی میں ڈولتی رہتی پاؤں کہیں رکھتی پڑتا کہیں دودھ ابل ابل کر بہہ جاتا ہانڈی روز جل جاتی بچوں کے ضروری کام بھی بھولنے لگی شوہر تو اپنا گزارا چلا لیتا مگر بچے چیخ پڑتے

 ممّا آج یونیفارم استری نہیں کروائے ٹائ نہیں ہے ۔موزے کی جوڑی نہیں مل رہی ۔اف آ ج پھر اسکول بس چھوٹ گئی چھوٹی لاڈلی بیٹی منہ بسورتی کوئ بات نہیں ہم اپنی فیری کو آ ج خود چھوڑ آ تے ہیں گاڑی کی چابی اٹھاتی شوہر کی سرد نگاہوں سے بچتی واپسی پہ سبزی پھل بھی لیتی آ ؤں گی۔ مگر وہ ایک سیکنڈ بھی ذہن سے محو نا ہوتا  بن پئے ہی مست رہتی نشے میں مخمور آ آنکھیں کھل کر نا دیتیں کسلمندی سے پڑی مہکتی رہتی ملازمہ آ تی مارے باندھے کام نمٹاتی یہ جا وہ جا ساتھ حیران ہو کر سوچتی باجی کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے ۔پڑوسن پوچھتی بھابھی بڑے دن ہو گۓ آ پ کے ہاتھوں کی بریانی کھاۓ دوسری کہتی طاہر کو  آ پکے ہاتھ کی ربڑی بہت پسند ہے تیسری چپلی کباب یاد کر کے چٹخارہ لیتی وہ پہلو تہی کر جاتی اسکے خیال میں رہنا اچھا لگتا اسکی لا یعنی باتیں مزہ دینے لگیں وہ ہر روز ایک شعر اسکے نام کرتا
مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر پھر پتہ نہیں اسے کیا ہوا ایکدم پیچھے ہٹ گیا نا صبح کا سلام نا پھولوں کے تحفے نا لمحے لمحے کی تفصیل سب بتانا بھول جاتا وہ سمجھی اکلوتا ہے ذمہ داریوں میں پھنسا ہے ٹائم نہیں ملا ہو گا  وقت کاٹے نہ کٹتا جو موٹر وے پہ سفر کے دوران  ہر گھنٹے بعد میسج کرتا اب یہاں ہوں اب وہاں ہوں یکسر  نظر انداز کردیتاوہ جلے پیر کی بلّی بنی گھومتی رہتی باغ باغیچہ ویران ہو گیا مگر جب دل کی بستی اجڑ رہی ہو تو بے زبان کی کون سنے میسج کم ہوۓ پھر بند ہوگئے اسے پنکھے لگ گۓ خود ہی مجبور ہو کے حا پوچھتی مصروفیت بتا کر ٹال دیتا کوئ اچھوتا سا شعر جواب کی آ س  میں بھیج دیتی وہ واہ لکھ کر گونگا ہو جاتاپہلے رابطے کم ہوۓ پھر راستے گم ہوۓ جو نام فرینڈز لسٹ میں سب سے اوپر جگمگاتا تھا ہوتے ہوتے سب سے نیچے چلا گیا وہ بے بسی سے دیکھتی رہی سو دفعہ فون اٹھاتی ،رکھتی میسج کروں یا نہیں انا بھی بیچ میں کھڑی ہو جاتی مگر عشق میں مرضیاں نہیں چلتیں اسے اسی کا بھیجا ایک شعر یاد آ گیا سو حال احوال کا پیغام لکھ دیا اسنے دیکھ کر رکھ دیا دلِ خوش فہم نے پھر ہمت کی جواباً  بڑی سختی سے کہا گیا میری ماں ایڈمٹ ہیں ہوسپٹل جارہا ہوں اس دن اپنی ذلت کا احساس شدت سے ہوا اب رابطہ نہیں کروں گی اس نے پکا عہد کر لیا اور خوب نبھایا ۔اس سے کوئی ہوسانہ محبت تو تھی نہیں جو قرب کی خواہش جاگتی  کھائی کھیلی عورت تھی شاید اسکو عشق کہتے ہیں وہ خود کو مطمۂن کرتی مگر دل نے کون کون سی دہائیاں نہیں دیں کیسے کیسے ضد نہیں کی مگر آ خری دن والی ذلت یاد کر کے دل کو سنبھال لیتی ۔گھرستی والی تھی کچھ نہ کچھ سنبھل ہی گئ مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کبھی ایسی ہوک اٹھتی کہ دل دیدار چاہتا ڈی پی کھول کے دیکھتی آ ج اس نے کیا شیئر کیا سب  پڑھتی کبھی لگتا یہ میسج میرے نام کا ہے مگر دماغ سے کیا عہد خوب نبھایا اب نہیں دھوکہ کھانا ۔وہ بھی شاید جان چھوٹنے پر مطمئن ہو گیاہے وہ گتھیاں سلجھاتی رہتی ۔آ ج موسم بڑا اچھا ہے اسکے شہر کے موسم کا احوال پاتے ہی سوچتی آ ج ضرور میسج کرے گا۔آج بہت ٹھنڈ ہے چاۓ کافی پیتے ہوئے یاد کیا ہوگا انبکس کھول کھول کر چیک کرتی مگر وہ تو کورا پڑا ہوتا کیسی کیسی گلاب رتیں گزر گئیں مگر وہ تو پتھر ہی رہا اب موسمِ برسات آ یا ہے اسے بھی بہت کچھ یاد دلائے گا دلِ خوش امید نے راہ دکھائی پچھلی برسات میں ہی تو ملا تھا کتنی بارشیں تھیں جو ایک دوسرے کو دکھا دکھا کر شیئر کی تھیں اور ایک ساتھ دیکھی تھیں مگر ایک ایک کر کے بارش والے سارے دن گزر گئے آ خر موسمِ برسات ہی گزر گیا اس پتھر میں جونک نا لگی وہ  بے دم ہوتے دل کو بہلانے میں کامیاب ہو ہی گئی  مگر سال بھر کا سفر صدیوں میں طے ہوا پورے گھر کا شیرازہ ہی بکھر گیا رستے ہوۓ زخموں پر کھرنڈ آ گیا۔حیرانگی اب بھی نا جاتی پتہ نہیں کیا چاہتا تھا خود ہی دراّتا ہوا آ یا دل کی بستی اور گھر گھرستی سب تہ تیغ کر ڈالی اور خود ہی کنارہ کش ہو گیا ایک دن  شیئر کیا ہوا تھ
ہوسکے تو سبب تلاش کرو
کوئ یونہی خفا نہیں ہوتا
وہ پھر دھوکہ کھا گئ شاید میرے لیئے لکھا ہو مگر غلطی کہاں ہے میری بہت سوچنے پر بھی یاد نہیں آ یا وہ جب بھی کچھ دوستوں کو شیئر کرتا وہ مرتے مرتے جی اٹھتی شاید آ ج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اس آ ج نے نا آ نا تھا نا آ ئ حیران ہو ہوکے سوچتی  آ نکھیں مل مل کےخو کو  دیکھتی یہ میں ہوں چھ ماہ میں ہی خوبصورت عمارت ملبے کا ڈھیر بن گئی ہڈیاں نکل آ ئیں آ نکھوں میں اداسیوں نے ایسے ڈیرے ڈالے کہ کنّی کی طرح چمکتی آ نکھوں میں کوئ رنگ ہی نا بچا نا کالی نا کتھئ  وہ اداس رنگ آ آنکھیں لگتیں جو کبھی جگنو کی طرح جگمگاتی تھیں ہیرے کی طرح جگراتی تھیں اب مٹیالے دیئے لگتے ۔چپکے چپکے اللہ سے شکوہ کرتی قسمت میں نہیں تھا تو کوسوں دور سے ملایا کیوں ۔ادھیڑ بن میں لگی رہتی بدعا بھی تو نہیں دے سکتی جو پیارے ہوں انکے لئیے بدعا نہیں نکلتی بعینہ جیسے جبرائیل کے پر جلتے ہیں اسکی چار بہنوں چار بیٹیوں کا خیال آ جاتا بوڑھے ماں باپ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور بیوی بیچاری کا کیا قصور ؟ان سب کی واحد امید وہی تو تھا اپنے کُرلاتے دل کی ایک نا سنتی بد دعائیں زبان تک آ تے آ تے دعاؤں کا روپ دھار لیتیں ۔
          ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔مگر اللہ کا انصاف و حساب تو اسی دنیا میں چکانا ہو گا نا دل قہقہہ لگاتا چاہے بہن سے یا بیٹی سے ۔نہیں خدایا !وہ کانپ جاتی جو تکلیف میں نے اٹھائ وہ اس سے محفوظ رہے
ببانگِ دہل قطع تعلقی کا اعلان کر کے معلمع چڑھا لیا کچھ سنبھل گئ مگر جو بنیادیں اندر سے ہلی تھیں انہوں نے باہر کی عمارت کو کھنڈر میں تبدیل کرنا شروع کر دیا ہے وہ  ٹوٹ ٹوٹ گئی آئرن لیڈی اب ٹوٹی پھوٹی عورت دِکھتی ہے اس نے خود ترسی کی قید میں آ تے ہوئے سوچا۔ اسے لگتا ہے روز روز  خود کو سنبھال لینے کا ورد کرتے رہنے سے ایک دن سنبھل ہی جاؤں گی۔ ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔کاش ایک بار آ کر بتا دے کہ اس نے میرے ساتھ یہ سب کیوں کیا  تو کرچیاں سمیٹنے میں آ سانی ہو جائے ایک تھکا تھکا سا سانس نکلا اس کے منہ سے
لمحے لمحے کی آنکھ پرنم ہے
کون کہتا ہے کہ وقت مرہم ہے

منگل، 23 اگست، 2016

ڈرپوک لڑکی (نظم) زارا مظہر

زارا مظہر

ڈرپوک لڑکی 

ایک دن وہ کہنے لگی!
میری حسرت ہے !
ایک کپ چائے!!!
آ پکے ساتھ پینے کی!
آ پکے خیال میں جینے کی!
کتنا رومانٹک ہے نا ! 
چاۓ آ پ کے ساتھ پینا !!!
وہ بولا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس میں 
کیا مشکل ہے !
آ جاؤ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
آ ج ہی پی لیتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
سڑک کنارے کیفے میں ملتے ہیں۔ ۔ ۔   
وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
۔ ۔   ۔ ۔ ۔ ۔   ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ چپ رہی !
بولی تو رو دی ۔ ۔ ۔ ۔ 
جو کام خواب میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
ممکن نہیں !
وہ حقیقت کا روپ ۔ ۔ ۔ 
دھارے کیسے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
وہ بولا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔   
خواب؟؟؟؟؟
ہاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔   
چاۓ ٹیبل پہ رکھنا !
تکلفاً چینی ڈالنا!!!
ہلانا،ملانا،گھلانا !!!
چمچ کی موسیقی سے ۔ ۔ ۔
دائرے بنانا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہر ہر دائرے میں ۔ ۔ ۔ ۔ 
سو سو بھنور بنانا ۔ ۔ ۔ 
ہر بھنور میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دھڑکنوں کاشور مچانا ۔ ۔ ۔ ۔ !
پلکیں گِرانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!
پلّو اُٹھانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  
اضطرار میں ۔ ۔ ۔ ۔  
انگلیاں باہم مِلانا!
ہموار سانس میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دھونکنی چلانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
پیوستہ ہونٹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
کپکپانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نم ہوتی مٹھی میں ۔ ۔ ۔ ۔ 
ٹشو دبانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
اف کپوں کا لڑکھڑانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
ایک دوسرے سے ٹکرانا !
اور ۔ ۔ ۔  ۔اور ۔ ۔ ۔ ۔
بوجھل پن سے ۔ ۔ ۔ ۔ 
آ نکھ کُھل جانا !!!!!!!!!!!!
اف اف ۔ ۔ ۔ جو بات خواب میں ممکن نا ہو !
وہ حقیقت میں ؟؟؟؟؟