ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

منگل، 15 ستمبر، 2015

کل دیکهی اک کامنی [ایک نظم] انور زاہدی

انور زاہدی
کل دیکهی اک کامنی
گہرے سرخ لباس میں
جیسے سرو کا ہو اک بوٹا
روشن دہکی آگ میں
آنکهیں اس کی
جگمگ جگمگ
جلتے ہوئے چراغ
چہرہ اس کا
ہجر کے موسم میں
اک کهلا گلاب
جی چاہتا تها 
لفظ چرا کے 
اک تصویر بناوں
فطرت میں جو رنگ ہیں 
سارے ' وہ اس کو پہناوں
لیکن تهی برسات بلا کی
اس پہ گاڑی چهوٹی
رنگ ہوئے تحلیل فضا میں
من کی آس بهی ٹوٹی
کیسے رنگ سمیٹوں میں
اور کیسے لفظ سجاوں
نقش' 
جو آنکهوں میں ہیں ان کی
کیا تصویر بناوں

بدھ، 9 ستمبر، 2015

حسن سادہ تها نیم شب کو .. انور زاہدی

انور زاہدی
چاند آدها تها نیم شب کو
کیسا وعدہ تها نیم شب کو
خواب دیکها تها یا شبہ تها
خوف زیادہ تها نیم شب کو
کهلا دریچہ تو میں نے دیکها
حسن سادہ تها نیم شب کو
فلک ستاروں کا ایک جنگل
وقت آدها تها نیم شب کو
چاند وحشت میں بس رواں تها
عجب ارادہ تها نیم شب کو
دم مسافت جو مڑ کے دیکها
خالی جادہ تها نیم شب کو
انور زاہدی 

پیر، 7 ستمبر، 2015

تیسرا ایکٹ (افسانہ) ۔۔کاشف حنیف

کاشف حنیف

ٹک ٹک ٹک ۔۔ٹک ٹک۔۔۔سفید قلموں اور ناک پر عینک جمائے میں جناح آڈیٹوریم میں داخل ہوا تو نیچے لگی لکڑی کی پھٹیوں
پر میرے چلنے کی آواز میرے ذہن کے دریچوں پر پڑے قفل کھولنے لگی۔ میں نے بائیں جانب نظر دوڑائی تو ہال میں لگی سیڑھیوں کی شکل میں اوپر سے نیچے کی طرف آتی ہوئی تمام کرسیاں خالی پڑی تھیں اور دائیں جانب ہال کا سٹیج تھا۔جس کے دونوں جانب آیاتِ قُرآنی اور درمیان میں قائداعظم محمد علی جناح کا ایک بڑا پورٹریٹ دیوار کے ساتھ نصب تھا۔چند دیدہ زیب کرسیاں،روسٹرم اور کسی این جی او کا بینر،یہ سب چیزیں سٹیج پر دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے حال ہی میں کوئی سیمینار آڈیٹوریم میں منعقد ہوا ہو۔دیکھتے ہی دیکھتے میرا ماضی میرے سامنے آن کھڑا ہوا۔
تب سٹیج خالی نہیں تھا بل کہ اُس پر آرٹس سے متعلقہ کچھ طلبا و طالبات ریہرسل میں مصروف تھے۔یونیورسٹی میں آرٹس کے طلباء و طالبات ایک این جی او کی معانت سے کینسر میں مبتلا لوگوں کے علاج معالجہ کے لیے فنڈز اِکٹھا کرنے کی غرض سے ایک سٹیج ڈرامہ کرنے جا رہے تھے۔ہم سب پچھلے تین دِن سے سیٹ لگانے،اپنے اپنے ڈائیلاگ یاد کرنے اور انھیں دُہرانے میں مصروف تھے۔کبھی کوئی چیز پوری ہو جانے سے رہ جاتی تو کبھی کوئی اور کام رہ جاتا۔صِرف ایک فرزانہ تھی جو اپنی ذات میں مکمل لگ رہی تھی شائد یہی وجہ تھی کہ وہ ڈرامہ کی ہیروئن کے طور پر کام کر رہی تھی۔