ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

پیر، 7 ستمبر، 2015

تیسرا ایکٹ (افسانہ) ۔۔کاشف حنیف

کاشف حنیف

ٹک ٹک ٹک ۔۔ٹک ٹک۔۔۔سفید قلموں اور ناک پر عینک جمائے میں جناح آڈیٹوریم میں داخل ہوا تو نیچے لگی لکڑی کی پھٹیوں
پر میرے چلنے کی آواز میرے ذہن کے دریچوں پر پڑے قفل کھولنے لگی۔ میں نے بائیں جانب نظر دوڑائی تو ہال میں لگی سیڑھیوں کی شکل میں اوپر سے نیچے کی طرف آتی ہوئی تمام کرسیاں خالی پڑی تھیں اور دائیں جانب ہال کا سٹیج تھا۔جس کے دونوں جانب آیاتِ قُرآنی اور درمیان میں قائداعظم محمد علی جناح کا ایک بڑا پورٹریٹ دیوار کے ساتھ نصب تھا۔چند دیدہ زیب کرسیاں،روسٹرم اور کسی این جی او کا بینر،یہ سب چیزیں سٹیج پر دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے حال ہی میں کوئی سیمینار آڈیٹوریم میں منعقد ہوا ہو۔دیکھتے ہی دیکھتے میرا ماضی میرے سامنے آن کھڑا ہوا۔
تب سٹیج خالی نہیں تھا بل کہ اُس پر آرٹس سے متعلقہ کچھ طلبا و طالبات ریہرسل میں مصروف تھے۔یونیورسٹی میں آرٹس کے طلباء و طالبات ایک این جی او کی معانت سے کینسر میں مبتلا لوگوں کے علاج معالجہ کے لیے فنڈز اِکٹھا کرنے کی غرض سے ایک سٹیج ڈرامہ کرنے جا رہے تھے۔ہم سب پچھلے تین دِن سے سیٹ لگانے،اپنے اپنے ڈائیلاگ یاد کرنے اور انھیں دُہرانے میں مصروف تھے۔کبھی کوئی چیز پوری ہو جانے سے رہ جاتی تو کبھی کوئی اور کام رہ جاتا۔صِرف ایک فرزانہ تھی جو اپنی ذات میں مکمل لگ رہی تھی شائد یہی وجہ تھی کہ وہ ڈرامہ کی ہیروئن کے طور پر کام کر رہی تھی۔



HELLO DOCTOR I AM SEEMI (ہیلو ڈاکٹر میں سیمی ہوں)جیسے پہلے فقرے سے لے کر تیسرے ایکٹ کے آخری منظر تک ڈرامہ کی ایک ایک لائن اُسے ازبر تھی۔اور اداکاری ایسی کہ حقیقت کا گماں ہوتا۔قہقہہ لگانے سے لے کر آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگانے تک کی ادا اُس کے اندر چھُپے کمالِ فن کی غماز تھی۔تعلیمی لحاظ سے بھی وہ ایسے ہی کمال کا مظاہرہ کرتی شائد اسی لیے میں ہمیشہ اُس کے قریب رہنے کی کوشش کرتا اور ہمارے سارے گروپ کو بھی اس بات کا علم تھا کہ میں فرزانہ کو پسند کرتا ہوں۔علی سعید کے بارے میں ہم کہ سکتے تھے کہ وہ سپاٹ لہجے میں بولنے والا عمدہ اداکار تھا۔اُسے فرزانہ کے باپ کا رول کرنا تھا۔میرا رول اک ڈاکٹر کا تھا اور نازیہ کا رول حقیقت پر مبنی تھا یعنی فرزانہ کی کلاس فیلو۔ویسے بھی فرزانہ اور نازیہ ایک دوسرے کے کافی قریب تھیں۔علی سعید اور نازیہ کی کیمسٹری بھی کافی دلچسپ تھی۔دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اور ہمیشہ ایک دوسرے کے آگے پیچھے رہتے ۔اِسی طرح چند دوسرے طلباء جو آرٹس تھیٹر گروپ کی نمائندگی کر رہے تھے اُن میں فائزہ درویش (جو بڑے گھر کی خوبصورت اور سلجھی ہوئی لڑکی تھی اور جسے سیمی کی والدہ کا کردار ادا کرنا تھا)،لقمان اور فیض لوگ بھی شامل تھے۔ڈرامہ کے لیے پاس پرنٹ کروائے گئے جو شہر کی مؤقر ہستیوں سمیت یونیورسٹی سے متعلقہ لوگوں تک پہنچائے گئے۔
مقررّہ دن ہال کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ساؤنڈ کوالٹی چیک کی جا رہی تھی۔اوکے کا اشارہ ملتے ہی ہال کی لائٹس آف کر دی گئیںاور سٹیج سے پردہ ہٹتا چلا گیا۔سامنے سٹیج پر پینٹ شرٹ اور سفید گاؤن میں ملبوس ڈاکٹر ریوالونگ چئیر پر بیٹھا مریضوں کو چیک کر رہا تھا۔ سٹیج دو حِصوں میں منقسم تھا ایک ڈاکٹر کا کمرہ اور دوسرا مریضوں کا وارڈ تھاجہاں ایک بیڈ اور سائیڈ ٹیبل کے ساتھ بیٹھنے کی میز رکھی ہوئی تھی۔ ایک نرس تھی جو ڈاکٹر کی مدد کر رہی تھی۔دو مریضوں کے بعد ایک لڑکی آئی جس نے سرخ رنگ کا دھاری دار لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور ساتھ سرخ رنگ کا دوپٹہ گلے میں ڈال رکھا تھا اور سرخ پونی سے ہی بالوں کو باندھ رکھا تھا۔ HELLO DOCTOR I AM SEEMI (ہیلو ڈاکٹر میں سیمی ہوں)سیمی نے اپنے باپ کے ساتھ ڈاکٹر کے کمرے میں داخل ہوتے وقت کہا۔نرس نے اس کے ہاتھ سے کچھ رپورٹس لے کر ڈاکٹر کے سامنے پھیلا دیں۔ڈاکٹر نے ایکسرے مشین کی لائٹ جلا کر سیمی کے ایکسریز پر نظریں گاڑھ دیں اورپھر باقی رپورٹس دیکھنے لگا،اِس کے بعد کچھ سوچتے ہوئے چند سوالات کیے جن کے جواب دینے پر ڈاکٹر نے کچھ دوائیں لکھ کر دیں اور سیمی کو دوبارہ آنے کا کہا اور باقی مریضوں کو چیک کرنے لگا۔سیمی کے باپ کے چہرے پر فکر مندی کے واضح آثار موجود تھے لیکن وہ بالکل خاموش رہا۔اِس دوران فیض کی انٹری نے کامک سین تخلیق کیا تو ہال میں بیٹھے تماشائی ہنسی نہ روک پائے۔آدھ گھنٹے کے پہلے ایکٹ کے بعد پردہ گرا اور ہال روشنیوں سے جگمگا اُٹھا۔
پردہ اُٹھتے ہی دوسرے ایکٹ کا منظر سامنے تھا۔اب سٹیج پر ایک بوسیدہ مکان کا سیٹ آویزاں تھا جہاں سیمی اپنی ماں (فائزہ درویش) کے ساتھ بان کی کھردری چارپائی پر بیٹھی ہے اور اُس کے سامنے کُرسی پر چائے کا کپ ہاتھ میں لیے اُس کی دوست بیٹھی ہے جو بظاہر سیمی کی عیادت کے لیے آئی ہے۔سیمی کے ہاتھ میں کتاب جبکہ اُس کی ماں کے ہاتھ میں سلائیاں اور اون ہے جس سے کچھ بُنا جا رہا ہے۔ماں بُنائی کرتے کرتے سیمی کی طرف کنکھیوں سے دیکھتی ہے۔اور اس کو اپنی طرف متوجہ پا کر پھر سلائیوں میں محو ہو جاتی ہے۔
نازیہ: آنٹی جی ہماری لیکچرر نے کہا ہے کہ جلد سیمی کو کالج بھیج دیں ہمارے داخلے جا رہے ہیں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کا داخلہ رہ جائے (خالی کپ ایک طرف رکھے ٹیبل پر رکھتی ہے)۔
ماں: اللہ سے دُعا کر بیٹی ہماری سیمی جلد ٹھیک ہو جائے پھِر اسے کالج بھیج دوں گی۔وہ ٹھنڈی سانس لیتی ہے اور پھِر سلائیوں میں مگن ہو جاتی ہے۔
سیمی: ماں ایک بات پوچھوں؟
ماں: ایک چھوڑ تو سو پوچھ۔
سیمی: آپ آجکل بہت چُپ چُپ ہو نا؟
ماں: نہیں تو تجھے ایسے ہی لگتا ہے۔اب تم پہلے کی طرح شرارتیں نہیں کرتی نا،اِس لیے ڈانٹ نہیں پڑتی تجھے یہی وجہ ہے کہ تم مجھے چپ سمجھتی ہو۔تم بالکل ٹھیک ہو جاؤ تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔
سیمی: اماں ڈاکٹر کیا کہتا ہے؟
اماں: وہ کہتا ہے کہ تم جلد بھلی چنگی ہو جاؤ گی (اِسی دوران بُنتی اُدھڑتی ہے اور پھر سے سلائیاں چلنے لگتی ہیں)۔
(اس دوران سیمی کا باپ اور بھائی پردہ ہٹا کر اندر داخل ہوتے ہیں،ابّا کے ہاتھ میں کچھ دوائیاں اور بھائی کے ہاتھ میں کچھ پھل ہیں جنھیں وہ سیمی کی طرف بڑھاتے ہیں اور سیمی اور نازیہ کے سر پر پیار دیتے ہیں)۔
نازیہ: اچھا سیمی میں چلتی ہوں کافی دیر ہوگئی (بیگ اُٹھا کر چل دیتی ہے)۔
سیمی : ابّا آخر کب تک یہ کڑوی کسیلی دوا ئیں کھانی پڑیں گی اور کب تک گھر میں گوشت نہیں پکے گا؟
ابّا frown emoticon سوالیہ نظروں سے سب کی طرف دیکھتا ہے اور دونوں ہاتھ سیمی کے سر پر پیار سے رکھتے ہوئے) میرا بیٹا جلد ٹھیک ہو جائے گا اور ان دواؤں سے جان بھی چھوٹ جائے گی۔تمھیں گوشت کھانا ہے نا؟ہم کل ہی گوشت کھائیں گے (اُس کی آنکھوں میں نمی تیرتی ہے)۔
سیمی: ایک بات پوچھوں ابّا؟
(سیمی کی ماں اِس دوران ڈرے ڈرے انداز میں سیمی کی طرف دیکھتی ہے اور بظاہر توجہ سلائیوں پر رکھتی ہے)
ابأ: بول سیمی بیٹا کیا پوچھنا چاہتی ہو؟
سیمی: ابّا مجھے اِس بات کی سمجھ آج تک نہیں آئی کہ اللہ اُن کو تو جی بھر کے دیتا ہے جن کے پاس پہلے سے سب کچھ ہو،لیکن اُن کوجھولی برابر بھی نہیں دیتا جن کے پاس پہلے سے کچھ نہ ہو۔ایسا کیوں ہوتاہے ابّا؟
ابّا: ایسے نہیں کہتے بیٹی،اللہ کی ذات بڑی کریم اور بزرگی والی ہے۔وہ تو سب کو دیتا ہے یہ تو ہم جیسے انسان ہیں جو اپنے اپنے حصّے مقرر ہونے کے باوجود دوسروں کا حِصّہ بھی چھین لیتے ہیں۔تُو زیادہ نہ سوچا کر پگلی،اللہ پہ توکّل کر وہ سب ٹھیک کر دے گا۔
لُقمان: کِس کو کتنا دینا ہے اور کہاں سے دینا ہے؟ یہ اُس ذات کی ذمہ داری ہے جس کے ہاتھ میں یہ زندگی اور اور اس کے تمام معاملات ہیں۔میں نے سنا ہے کہ خوش قسمت وہ ہے جو اپنی قسمت پہ خوش ہے۔اور ابھی تو زندگی پڑی ہے سیمی دُنیا دیکھنے کے لیے۔
سیمی: ہاہاہا۔۔۔(سیمی طنز کی کاٹ لیے بھی ہنستی ہے تو لگتا ہے گویا جلترنگ بج اُٹھے ہوں) دُنیا بھی دیکھ ہی لیں گے لقمان بھائی،یہ دُنیا نہ سہی دوسری سہی۔
چند اور باتوں کے بعد پردہ گر گیا اور تیسرے اور آخری ایکٹ کا انتظار شروع ہوا۔تیسرا ایکٹ میں کیسے بھول سکتا ہوں فرزانہ؟وہیں تو کہانی کا فیصلہ ہوتا ہے۔
پردہ اُٹھا تو تیسرے ایکٹ کا منظر سامنے تھا۔
ڈاکٹر خلیل پہلے ایکٹ کی طرح ریوالونگ چئیر پر بیٹھے ہیں۔دو تین مریض آئے اور چیک اپ کے بعد چلے گئے۔سب کے جانے کے بعد ڈاکٹر خلیل نے اپنے سامنے پڑے ایکسریز اور دیگر رپورٹس چیک کرنے کے بعد تشویش سے نفی میں سر ہلایا۔اب کی بار ساتھ والے وارڈ میں بے حس و حرکت پڑی مریضہ سیمی تھی جس کو لگی ڈرپ قطرہ قطرہ چل رہی تھی۔اس کے پاس اس کا بھائی لقمان اور ایک نرس بیٹھی ہے،نرس کلائی کی گھڑی کی طرف بار بار دیکھ رہی تھی ۔اسی اثناء میں سیمی کی والدہ اور والد ڈاکٹر خلیل کے کمرے میں آئے اور سیمی کی حالت کا پوچھا تو ڈاکٹر خلیل نے مایوسی کا اظہار کیا اور ساتھ ہی کہا کہ اگر بر وقت آپریشن ہو جاتا تو شائد ۔۔۔لیکن اب بہت دیر ہو چکی۔
اِسی اثناء میں سیمی ہاتھ پاؤں کھینچتی ہے۔۔۔اُس کی سانس اُکھڑتی ہے۔۔۔نرس بھاگ کر ڈاکٹر کے پاس پہنچی تو سب مل کر وارڈ میں پہنچے۔ماں نے سیمی کو اپنی گود میں لیا تو سیمی کا چہرہ تماشائیوں کی طرف ہو گیا۔فوکس لائیٹس میں سیمی کے چہرے کے تاثرات بڑے واضح طور پر دیکھے جا سکتے تھے۔سیمی کی آنکھیں حد سے زیادہ کھلیں ڈاکٹر نے سیمی کا ہاتھ پکڑ لیا کہ کہیں وہ ڈرپ سے نہ ٹکرائے سیمی نے مضبوطی سے ڈاکٹر کا ہاتھ تھام لیا۔۔۔سیمی کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جاری تھی۔ماں نے آواز دی سیمی !اُٹھ سیمی خدا کے لیے ہوش کر!باپ اور بھائی نے چیخ کر سیمی کو آواز دی اور ڈاکٹر سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب خدا کے لیے سیمی کو بچا لیں اور پھِر خود ہی ڈاکٹر کی بجائے سیمی کی طرف متوجہ ہوئے۔سیمی کی آنکھیں بند ہو گئیں اور ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔۔۔اور پاؤں کی انگلیاں مُڑ کر سیدھی ہو گئیں۔آہ و بُکا شروع ہو گئی اور پسِ پردہ سوگوار موسیقی بجنے لگی اور پردہ گر گیا۔
ہال کی لائٹس آن ہوئیں تو ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔کچھ دیر کے بعد تمام اداکار مل کر سامنے آئے اور سلامی دی۔ہال ایک بار پھر تالیوں سے گونج اُٹھا اور سب پسِ پردہ چلے گئے۔کچھ دیر کے بعد روسٹرم سٹیج پر لایا گیا تو ڈرامہ کی مرکزی کردار سیمی سب سے مخاطب ہوئی ۔مہمانانِ گرامی کے آنے پر شکریہ کے کلمات ادا کیے اور کہا ’’ مجھے فرزانہ کہتے ہیں۔میرا خیال ہے کہ زندگی جینا ہم سب کا حق ہے۔اور اگر ہم اللہ کے حکم سے کسی کی زندگی کو ایک پل کی طوالت بھی بخش سکتے ہیں تو یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اِس نیک کام کو ترویج دیں۔بہت سے ایسے لوگ جو اپنا خیال نہیں رکھ سکتے اُن کا خیال رکھنا ہم سب کا فرض ہے۔اگر کسی کی مُسکراہٹ ہمارے عطیات یا صدقات سے متصل ہے تو کیوں نہ ہم اُن لوگوں میں مسکراہٹیں بکھیر دیں؟تاکہ معدوم ہوتی ہوئی زندگی پھِر سے جنم لے سکے۔شکریہ۔اس کے بعد ڈاکٹر وقار( جو ایک این جی او کے سربراہ بھی تھے) اور ڈین فیکلٹی باری باری سٹیج پر آئے اور لوگوں سے التماس کی کہ کینسر سے متاثرہ لوگوں کی بھرپور امداد کی جائے۔این جی او کو یونیورسٹی سے بھرپور تعاون حاصل ہوا۔
تیسرے سمیسٹر کے بعد کلاس دوبارہ شروع ہوئی تو لگا جیسے زندگی پھِر سے شروع ہوئی ہو۔وہی کینٹین،وہی دوست ایک دفعہ پھِر مِل گئے اور تعلیمی مصروفیات کے ساتھ ہلّہ گلہ پھر سے شروع ہو گیا۔ہاں البتہ فرزانہ کچھ کھوئی کھوئی تھی۔میں نے بھی اس سے بات کرنے کا سوچ لیا۔
فرزانہ کیا بات ہے،گھر پر سب خیریت تو ہے نا؟ میں نے پوچھا۔
ہاں سب ٹھیک ہے۔اُس نے جواب دیا۔
تو پھِر تم یوں چُپ چُپ کیوں ہو؟ میں نے استفسار کیا۔
بس طبیعت کچھ ٹھیک نہیں رہتی کچھ دنوں سے۔اُس نے جواباً کہا۔
اتنی دیر میں سب ہمارے پاس پہنچ گئے۔
کیا بات ہے؟ کوئی راز کھولا جا رہا ہے؟ فیض نے آتے ہی میرے دھول جماتے ہوئے کہا۔
ہاں ایسا ہی ہے۔میں نے شرارت بھرے انداز میں کہا۔
کچھ ہم سے بھی شئیر کر لیا کرو یار۔علی سعید کی گرجدار آواز بلند ہوئی۔
ہاں جی اِن سے شئیر کر لیں ،جہاں ہم اکیلے میں ان سے ہر راز کی بات پوچھ لیتے ہیں وہاں یہ بھی پوچھ لیں گے۔نازیہ نے آنکھوں میں شرارت بھر کر علی سعید کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ،اس کے ساتھ ہی سب نے قہقہہ بلند کیا۔
ایسی کوئی بات نہیں ہے تم لوگ خوامخواہ بات بڑھا رہے ہو۔ہم صرف گھر کی بات کر رہے تھے۔فرزانہ نے مسکرا کر جواب دیا لیکن مجھے یہ مسکراہٹ بالکل پھیکی سی لگی۔
اووہ یعنی بات گھر تک۔۔۔نازیہ نے آنکھیں اچکاتے ہوئے کہا تو سب ایک بار پھِر ہنس دیے۔فرزانہ کی آنکھیں نم ہونے لگیں تو میں نے بات کا موضوع بدل دیا۔
اگلے ہی دِن میں نے جی کڑا کر کے فرزانہ کو شادی کے لیے پرپوز کر دیا۔
آپ بہت اچھے ہیں اسفند،لیکن ایسا نہیں ہو سکتا اور نہ ہی آپ پلیز آئندہ ایسا سوچئے گا۔اس نے بڑے دِھیمے انداز میں جواب دیا۔
کیا آپ۔۔۔(میں نے اپنا پہلا فقرہ ادھورا چھوڑا اور کہا) اگر آپ کو برا نہ لگے تو میں وجہ جان سکتا ہوں؟
جی اسفند اس کی بہت ساری وجوہات ہیں لیکن ایسا کچھ نہیں جو آپ سوچ رہے ہیں۔نہ تو میری منگنی کسی اور سے ہوئی ہے اور نہ ہی میں کسی اور شخص سے محبت کرتی ہوں۔لیکن میری کوئی مجبوری ایسی ہے کہ میں آپ سے شادی نہیں کر سکتی۔اُس نے اس انداز میں بات کی کہ میں مزید اِس حوالے سے کوئی بات نہ کر سکا اور صِرف سوچتا ہی رہ گیا کہ آخر ایسی کیا مجبوری ہو سکتی ہے؟ سارے دوستوں کو اس واقعے کا علم ہو گیا اور سب میرے دُکھ میں (بقول اُن کے) برابر کے شریک تھے۔
اِس سارے واقعے کے بعد بھی اُس کا روّیہ بالکل نارمل رہا،وہ ذرّہ برابر بھی نہیں بدلی یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ہم دونوں کے بیچ کوئی بات ہوئی ہی نہیں۔وہی دوستانہ مزاج، وہی ہنسی مذاق اور پچھلی کلاسوں میں نفسیات کی طالبہ ہونے کے ناتے گاہے گاہے نفسیات کی مشکل اصطلاحات کو آسان لفظوں میں بیان کرنا اُس کا شغل رہا۔اور پھِر اسی دوران اسے اپنے چیک اپ کے لیے گھر واپس جانا پڑا۔ہم سب اُس کے لیے دُعا گو تھے۔
اب کی بار اُسے گئے کافی دِن ہو گئے،اور آخری سمسٹر کے امتحانات قریب آ گئے۔ہم سب اُس کی طرف سے متفکر تھے۔اُس کے گھر فون نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں اُس کے گھر جا نا پڑا تو معلوم ہوا کہ وہ لاہور شفٹ ہو گئے ہیں۔ہم سب کو اِس بات سے حیرانی ہو رہی تھی کہ اگر وہ لاہور جا رہے تھے تو فرزانہ کو ہم سے رابطہ کرکے اطلاع دینی چاہیے تھی،ویسے بھی وہ یونیورسٹی میں ہوسٹل میں بھی رہ سکتی تھی۔خیر کسی بھی طرح یہ گُتھی سلجھنے میں نہیں آ رہی تھی۔تب ہم نے اس کا لاہور کا پتا لیا اور اتوار کا دِن لاہور جانے کے لیے مختص کیا۔لاہور اُس کے گھر پہنچے تو پاؤں کے نیچے سے زمین کھسکتی ہوئی معلوم ہوئی۔بہت سی باتیں سمجھ میں آئیں تو بہت سی سر سے گزر گئیں۔فرزانہ کینسر میں مبتلا تھی اور لاہور کے ایک مشہور ہسپتال میں داخل تھی۔ہم ہسپتال پہنچے تو اندازہ ہوا کہ وہ بول نہیں سکتی تھی۔اُس کی ماں نے بتایا کہ پچھلے گیارہ دن سے فرزانہ اِسی حالت میں تھی۔ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ اگلے پل کیا ہو۔مجھے یوں لگا کہ یونیورسٹی والا سیٹ یہاں بھی لگ چُکا ہے۔
فرزانہ۔۔۔! میں نے اس کے پاس کھڑے ہو کر آواز دی،اور جواب نہ پا کر دوبارہ زور سے فرزانہ کو آواز دی اور اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیا۔آواز شاید اس کے کانوں کے پردے تک کا سفر طے کر چکی تھی۔اس نے بمشکل آنکھیں کھولتے ہوئے ہم سب کی طرف دیکھا لیکن کمزوری کے باعث یا شاید دوائیوں کے زیرِ اثر ہونے کی وجہ سے گردن نہ ہلا سکی۔البتہ اُس کی آنکھوں سے چند اآنسو لڑھک کر اس کے کانوں کا طواف کرنے چل نکلے۔فائزہ اس کی پائینتی کی طرف بیٹھی یک ٹک اسے دیکھے جا رہی تھی اور ہم سب کی آنکھیں رواں ہو گئیں۔
ابھی ایک اور خبر ہماری منتظر تھی، فرزانہ کے باپ نے بتایا کہ فرزانہ تب بھی کینسر کی زد میں تھی جب یونیورسٹی میں ڈرامہ کیا جا رہا تھا۔تب میں کچھ سوچ رہا تھا۔ماضی کا ایک دریچہ وا ہو رہا تھا یا شاید کوئی عُقدہ وا ہو رہا تھا۔
اِس این جی او تک تمھاری رسائی کیسے ہوئی فرزانہ بی بی؟ میں نے ڈرامہ کے بعد اُس سے پوچھا ۔
ڈاکٹر وقار میرے پاپا کے بہت اچھے دوست ہیں اور ایک این جی او بھی چلا رہے ہیں۔اُن کے ساتھ میری ملاقات پاپا نے کروائی تو انھوں نے کہا کہ ہم کینسر کے مریضوں کے لیے فنڈز اکٹھا کرنا چاہتے ہیں۔پھِر میں نے کہا کہ بھئی ہم آرٹس سے وابستہ لوگ ہیں کیوں نہ اپنے شعبے کا بھرم رکھا جائے۔اور بس پھِر ڈین فیکلٹی سے تو ہم نے مل کر بات کی ۔باقی سب کے سامنے ہی ہے جو ہوا جیسے ہوا‘‘۔
اور تب ایک اور بات کا جواب میرے سامنے آگیا کہ فرزانہ نے مجھ سے شادی کرنے سے انکار کیوں کیا؟
میرے ہاتھ پر فرزانہ کے ہاتھ کا دباؤ بڑھا تو میں خیال کی دنیا سے وارڈ میں پہنچ گیا۔فرزانہ کی طبیعت بگڑ رہی تھی۔فوراً ڈاکٹر اور نرسیں وہاں پہنچ گئیں۔آکسیجن ماسک اس کے مُنہ پر چڑھا دیا گیا۔دوپہر سے شام اور شام سے رات کا وقت کیسے کٹا یہ وہی جان سکتا ہے جس پر بیت رہی ہو۔فرزانہ کی طبیعت کچھ دیر کے لیے بہل گئی۔کرب کے ساتھ ساتھ ٹھنڈ کی لہر ہماری ہڈیوں میں سرائیت کرتی جا رہی تھی۔کہ رات کے قریباً ساڑھے بارہ بجے کے قریب فرزانہ کی حالت پھِر بگڑ گئی۔لیکن اب کی بار ڈاکٹروں کی تمام کوششیں اور ہماری دُعائیں ریت کی ڈھال ثابت ہوئیں اور فرزانہ نے ہاتھ پاؤں کھینچ کر ڈھیلے چھوڑ دیے۔اب کی بار اس کی آنکھیں پوری طرح نہ کُھل پائیں اور شاید یہی تیسرے ایکٹ کے آخری منظر اور موجودہ منظر میں فرق تھا۔ہم لوگ اگلی صُبح جنازے کے بعد واپس آرہے تھے کہ لقمان نے کہا ’’مجھے لگتا ہے کہ فرزانہ ہمارا انتظار کر رہی تھی‘‘۔سب نے اس کی بات کی تائید کی اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے ہاتھ میں ابھی تک فرزانہ کا ہاتھ ہو۔’’زندگی بہت عجیب چیز ہے اسفند ،بالکل اسی بے وفا محبوبہ کی طرح جو اچانک ساتھ چھوڑ دے، اور زندگی کا فلسفہ تو خود زندگی کو بھی سمجھ نہیں آتا‘‘۔ میرے ذہن کے دریچے پر فرزانہ کی کہی گئی بات دستک دے رہی تھی۔
ٹک ٹک ٹک۔۔ٹک ٹک۔۔۔۔کی آواز سے میں حال میں لوٹ آیااور میرے کانوں میں آواز پڑی،کیا دیکھ رہے ہیں پاپا؟
’’تیسرا ایکٹ‘‘ ۔میں نے بے دھیانی میں جواب دیا۔
کیا مطلب پاپا؟اس نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
ہاں ۔۔۔۔کچھ نہیں بیٹا،چلیں؟ میں نے اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے جواباً استفسار کیا۔
جی پاپا ایڈمیشن تو فائنل ہو چکا اب گھر پہنچ کر کچھ تیاری کرنا ہے مجھے۔
اور پھِر اُسامہ کو ساتھ لیے آنکھوں کو نم کرتا ہوا واپسی کے سفر پر گامزن ہو گیا۔مجھے گھر جلدی پہنچنا تھا کیوںکہ میری بیگم فائزہ درویش میرا اور اُسامہ کا انتظار کر رہی تھی۔
زندگی بہت عجیب چیز ہے اسفند ،بالکل اسی بے وفا محبوبہ کی طرح جو اچانک ساتھ چھوڑ دے، اور زندگی کا فلسفہ تو خود زندگی کو بھی سمجھ نہیں آتا۔ میرے ذہن کے دریچے پر فرزانہ کی کہی گئی بات دستک دے رہی تھی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں