ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

جمعرات، 8 جنوری، 2015

رابعہ بتول کے شعری مجموعےِ، سحر تک دیپ جلنا ہے،، پر ایم زیڈ کنول کا تبصرہ

محبت اوراُمیدکی شاعرہ۔رابعہ بتول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رابعہ بتول اردو شاعری کا وہ ستارا ہے جو میانوالی کے افق سے طلوع ہو کر چار دانگِ عالم  کو اپنی روشنی سے منور کر رہا ہے  وہ خامشی  کی زبان لئے، حیران آنکھوں اور ساگرِ دل میں برپا تلاطم لئے امید کے سفر پر گامزن ہے۔اس ایمانِ کامل کے ساتھ کہ وہ جو شجرِ بوسیدہ پہ بھی ثمرلگانے اور سیپ میں آبِ نیساں کو  گہربنانے پر قادر ہے،جو حسنِ عیاں بھی ہے اور سرِ نہاں بھی،وہ اس کی خوابوں کی شاخِ بریدہ  
کو سبز موسم  موسموں سے آشنا کرکے اس کے     گلِ رعنا میں نئی کونپلیں کھلا کے نئے موسموں  میں خوشبوؤں کے رنگ  ضرور بکھیرے گا۔وہ اپنے دلِ مضطر  کو بھی اس امر کا یقین دلاتے ہوئے کہتی ہے۔
دعائیں پر اثر ہوں گی،صدائیں باثمر ہوں گی
نہ گھبراؤ دلِ مضطر کہ آہیں کارگر ہوں گی
رابعہ محبت اور امید کی شاعرہ ہے۔ دینا میں پرپا ہوتی کشاکش، نفرتیں، استحصال اور سماجی نا انصافی کو اپنے چاروں اور دیکھتی ہے تو اس کا محبت بھرا دل  ایک لمحے کو مضمحل ہو جاتا ہے خود سے سوال کرتی ہے کہ رستے کہاں گم ہو گئے ہیں؟جذبوں کی خوشبو سے جو خواب گندھے تھے، اشکوں کی تابش سے جوامیدوں کے جگنو  دل میں چمکتے تھے، کچھ چاندنی جیسے دیئے جو پلکوں پہ لرزتے تھے، وہ سب کہاں گُم ہو گئے؟یہ  یقین و بے یقینی کا سفر  اُسے آزردہ کرتا ہے  لیکن وہ دوسرے لمحے ایقان کی مشعل دل میں جلائے اپنی روشن آنکھوں اور کشادہ پیشانی کو مزید کشادہ کرتے ہوئے دعوتِ یقین دیتے  ہوئے یوں کہتی ہے۔
آؤ تجدیدِ آرزو کر لیں 
غنچہ ء گل کی جستجو کر لیں 
اس اندھیرے میں دم نہ گھٹ جائے
نورِ امید چارسو کر لیں 
اُسے یقین ہے ہے کہ تمنا کے سفر میں یہ کشٹ  اکارت نہیں جائے گا۔وہ لمحہ  ضرور آئے گا  جب اندر کی دنیا کی گھٹن اپنا  آپ  مٹا کے  تمام صداؤں کو معتبر کر دے گی۔ ایقان  کا  سفر اس نے عبادت کی طرح کیا ہے۔ ایک طویل عرصہ خود کو حالتِ عبادت میں رکھا ہے، تب کہیں جا کر اسے یہ امید ہوئی ہے کہ  ظلمتیں ضرور مٹیں گی۔وہ دیو جانس قلبی کی طرح اپنے ہا تھوں میں دیپ اٹھائے ظلمتوں کو ہرانے چلی ہے۔ اس کے ہاتھوں، اس کی آنکھوں اور دل میں دیپ روشن ہے، اس آس کے ساتھ کیصبح تک یہ جلتا رہے گا۔ کوئی طوفان، کوئی جھکڑ اس کا راستہ نہیں روک سکتا۔وہ کہتی ہے۔
خوابوں کو کسی طور بکھرنے نہیں دینا
                          جاں بخش سہاروں کو تم مرنے نہیں دینا
سحر تک دیپ جلنا ہے ،،  رابعہ کی طباعت سے آشنائی کی پہلی منزل ہے۔ اس میں نظموں کا چمنستان بھی ہے اور غزلوں کا آشیاں بھی، حمد باری تعالیٰ کا آستان بھی  ہے اور نعتِ رسول مقبول ﷺ کا گلستان بھی، نسائی جذبوں کا بلیدان بھی ہے ۔ 
سمجھنا چاہتے ہو تم اگر عورت کی قسمت کو
تو دل کی آنکھ سے تکنا کبھی کیکٹس کے پھولوں کو
یہاں ررشتوں اور جذبوں کے ساتھ محبتوں کی کہکشاں بھی ہے جہاں، ہر پھول لطافت، رفعت اور محبت کا امین ہے۔اپنی نظم Necessary Evil میں کہتی ہے۔
کسی کے ساتھ چلنے کو 
رفاقت کہہ نہیں سکتے
محبت کہہ نہیں سکتے 
اس لئے نظم وہ جو خواب ہیں میں  وہ گلاب جیسے خواب اپنی آنکھوں میں بسانے کی آرزو لئے ہوئے کہتی ہے۔
کبھی خوشبوؤں کے لباس میں 
کبھی التجاؤں کی سانس میں 
کبھی منزلوں کی ہیں آس میں 
وہ خواب ہیں جو گلا ب سے۔۔ 
یہی خواب تو ہیں جو  یہ آس دلاتے ہیں کہ
سحر تک دیپ جلنا ہے
ایم زیڈ کنولؔ۔۔

1 تبصرہ:

  1. وہ آئیں یا نہ آئیں پر سحر تک دیپ جلنا ہے
    فراقِ یار میں ہم کو کفِ افسوس مَلنا ہے

    کنول کا تبصرہ اس شعری مجموعے پہ ہے دلکش
    چمن میں عاشقوں کو عمر بھر کانٹوں پہ چلنا ہے
    احمد علی برقی اعظمی

    جواب دیںحذف کریں