ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

ہفتہ، 19 جولائی، 2014

وہ لہو جیسے سمندر میں اترتا سورج ۔۔ یاور ماجد

یاور ماجد
نام مڑ مڑ کے بھلا کس نے پکارا تھا مرا؟
کس کو اس  طرح بکھر  جانا گوارا تھا مرا؟
 نقش کس طور سے اور کس نے ابھارا تھا مرا
ہاتھ کب میرے تھے؟ بس چاک پہ گارا تھا مرا
وہ جو بپھرا سا سمندر تھا ۔۔۔ کنارہ تھا مرا
جس میں سب ڈوب گئے وہ تو نظارا تھا مرا
 دھوپ میں جلتا پرندہ مجھے یوں دیکھتا تھا
بارشوں، سایوں پہ جیسے کہ اجارا تھا مرا
 وہ لہو جیسے سمندر میں اترتا سورج
شام نے گویا کوئی عکس اتارا تھا مرا
 کسی امید کی امید ہی اک دن ہو گی
اسی امید پہ پوچھو تو گذارا تھا مرا
 پہلے ہاتھوں سے لکیریں مٹیں رفتہ رفتہ
کل جو پھر ٹوٹ گرا پل میں، ستارہ تھا مرا
 تھا نشہ سارا  زیاں میں مرا یاور ماجد
فائدہ کوئی بھی ہو، اس میں خسارہ تھا مرا

جمعہ، 18 جولائی، 2014

سنتا جاؤں اذاں مدینے میں ۔۔ سید صغیر احمد جعفری

سید صغیر احمد جعفری
چھاؤں ٹھنڈی وہا ں مدینے میں
کیونکہ ہے سائباں مدینے میں
وہ ملے عرصہِ حیات مجھے
سنتا جاؤں اذاں مدینے میں
رحمتوں کی ہوں بارشیں مجھ پر
ہو کرم سب عیاں مدینے میں
کیوں نہ ہر شے ہو مہرباں مجھ پر
ہے مرا مہرباں مدینے میں

جمعرات، 17 جولائی، 2014

صرف پروردگار کی باتیں ۔۔ رضیہ سبحان

رضیہ سبحان
آئینے کی،سنگھار کی باتیں
کیا کریں حُسنِ یار کی باتیں
وصل کا ،ہجر میں تصور ہو
اور خزاں میں بہار کی باتیں
باعثِ کرب و اضطراری ہیں
اِس دلِ بیقرار کی باتیں
تشنگی زیست کی نہ بڑھ جائے
رہنے ہی دو خُمار کی باتیں
رنگ بھر تی ہیں زرد موسم میں
عارض و چشمِ یار کی باتیں
دیدہ و دل کا در کُھلا رکھیں
پھر کریں اختیارکی باتیں
موت کے در پہ دستکیں جیسی
شامِ غم ، انتظار کی باتیں
کرگئیں اپنے آپ سے شاکی
جشنِ گل میں شرار کی باتیں
حُسن کا امتحان ہوتا ہے
عشق میں اعتبار کی باتیں
آج تو زندگی کا محور ہیں
صرف پروردگار کی باتیں

بدھ، 16 جولائی، 2014

روگ دل کو لگائے بیٹھا ہے ۔۔سید انور جاوید ہاشمی

سیدانور جاوید ہاشمی
روگ دل کو لگائے بیٹھا ہے
سامنے آئینے کے بیٹھا ہے
کوئی تجھ سا نہیں جہاں میں کیا
تو جو ایسے اکیلے بیٹھا ہے
پشت دیوار سے لگائے ہوئے
گود میں تکیے رکھے بیٹھا ہے
کل بھی بیٹھے گا کیا اسی کروٹ
آج کروٹ پہ جیسے بیٹھا ہے
دھوپ کرنوں سے غسل کرنے کو
کیسے روزن وہ کھولے بیٹھا ہے
دیدہ و دل کو فرشِ راہ کیے
آئیے !کہتے کہتے بیٹھا ہے

جمعہ، 11 جولائی، 2014

ﮐﺮﯾﮟ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﺗﯿﺮﯼ ﺧﺎﮎ ﺳﮯ ﺍﺭﺽ ﻭ ﺳﻤﺎ ﻧﻘﻮﯼ .. ذوالفقار نقوی

دھواں تھا چار سو اتنا کہ ہم بے انتہا روئے
چراغِ دید ہی گل تھا نہ کیوں روحِ ضیا روئے
عجب حدت مرے اطراف میں جلوہ فروزاں تھی
کہ میری خاک سے شعلے لپٹ کر بارہا روئے
کسی پتھر کے کانوں میں مری آواز یوں گونجے
کہ اس کے دل کے خانوں میں چھپا ہر اژدہا روئے
سریرِ حجتِ یزداں زمین پر اتر آیا؟
انا سر پیٹتی آئی جفاوں کے خدا روئے
مرے آغاز میں مجھ کو ہی رونا تھا سو میں رویا
نہ جانے کیوں مرے انجام پہ شاہ و گدا روئے
کریں انکار تیری خاک سے ارض و سما نقوی
عبث ہے،آنکھ بھر آئے یا تیرا نقشِ پا روئے

جمعہ، 4 جولائی، 2014

کھی تو درد بھی سینے کے پار اٹھتا تھا ۔۔ ضیا حسین ضیا

ضیا حسین ضیا
سفر میں قد کے برابر غبار اٹھتا تھا
وہ دن تھے ،ابر نہیں ،بس ،خمار اٹھتا تھا
گہے خود اپنی بھی تعظیم سے ہوئَے بیزار
گپے ہمارے لئے ہر مزار اٹھتا تھا
چراغ طاق نہیں ، سلوٹوں کی زنیت تھا
میں اپنی نیند سے جب شعلہ وار اٹھتا تھا
سمٹ کے ہم ترے سینے میں ہو گئے جمع
جو تیری موج سی بانہوں کا پیار اٹھتا تھا
کبھی تو جمع_ محبت کی یہ بھی شکل ہوئِی
مسیحا پوچھتا تھا ، انتشار اٹھتا تھا ؟
کبھی کلیجے پہ اک پھانس بھی صلیب رہی
کھی تو درد بھی سینے کے پار اٹھتا تھا
غبار پر تھا کسی اور گرد کا پہرہ
نگہ سے کب دل _ ماضی کا بار اٹھتا تھا
فلک کی ساری جوانی لٹا کے ہم لوٹے
کبھی تو ایسے بھی اک انتظار اٹھتا تھا
ہمیں تو یونہی لگا ، دل کا بیٹھنا تھا روگ 
مگر نہ جان سکے ۔ اعتبار اٹھتا تھا