ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

ہفتہ، 19 جولائی، 2014

وہ لہو جیسے سمندر میں اترتا سورج ۔۔ یاور ماجد

یاور ماجد
نام مڑ مڑ کے بھلا کس نے پکارا تھا مرا؟
کس کو اس  طرح بکھر  جانا گوارا تھا مرا؟
 نقش کس طور سے اور کس نے ابھارا تھا مرا
ہاتھ کب میرے تھے؟ بس چاک پہ گارا تھا مرا
وہ جو بپھرا سا سمندر تھا ۔۔۔ کنارہ تھا مرا
جس میں سب ڈوب گئے وہ تو نظارا تھا مرا
 دھوپ میں جلتا پرندہ مجھے یوں دیکھتا تھا
بارشوں، سایوں پہ جیسے کہ اجارا تھا مرا
 وہ لہو جیسے سمندر میں اترتا سورج
شام نے گویا کوئی عکس اتارا تھا مرا
 کسی امید کی امید ہی اک دن ہو گی
اسی امید پہ پوچھو تو گذارا تھا مرا
 پہلے ہاتھوں سے لکیریں مٹیں رفتہ رفتہ
کل جو پھر ٹوٹ گرا پل میں، ستارہ تھا مرا
 تھا نشہ سارا  زیاں میں مرا یاور ماجد
فائدہ کوئی بھی ہو، اس میں خسارہ تھا مرا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں