ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

جمعہ، 26 دسمبر، 2014

کُھلے گا اِ سم ِ اعظم سا نس کا رشتہ نہ گر ٹُوٹا ۔۔ سید انور جاوید ہاشمی

سید انور جاوید ہاشمی

کُھلا پہلا کو ئی ہم پر نہ کو ئی د ُ و سر ا ہم پر
سفر آ غا ز سے ا نجا م تک آ خر کھُلا ہم پر
ہماری عکس ریزی اِ س کی ہی مرھون ِ منّت ہے
ا گر ہنستا ہے تو ہنستا ر ہے یہ آ ئینہ ہم پر
نکلتے گھر سے صُبح دم تو میلوں تک چلا کر تے
گر ا ں گز ر ے ہے ا ب تو اِ ک قد م کا فاصلہ ہم پر
نظر سے پھر کبھی ہم بھوُل ہی پاتے نہ وہ منظر
نظر اِ ک پیا ر کی تُم ڈ ا ل د یتے گر ذ ر ا ہم پر
غز ل ، نظمیں، فسا نے، واقعے ہم نے بہت لکھّے
ر ہا ہے تنگ پھر بھی ز ند گی کا قا فیہ ہم پر
تو کیا ا حسا س کی حد سے کہیں آگے نکل آئے
ا ثر ا ب کیو ں نہیں کر تی د و ا کوئی دُ عا ہم پر
کُھلے گا اِ سم ِ اعظم سا نس کا رشتہ نہ گر ٹُوٹا
خُد ا کا فضل شا مل ہو ر ہے گا د یکھنا ہم پر

پیر، 22 دسمبر، 2014

یہ آنکھ میری خواب میں بھی نم ہے دوستو ۔۔ سبیلہ انعام صدیقی

سبیلہ انعام صدیقی
لگتا نہیں ہے عید میں کچھ دم ہے دوستو
کیا درد فلسطین کا کچھ کم ہے دوستو 
ہے چوٹ ان کے جسم میں تکلیف مجھ کو ہے
یہ آنکھ میری خواب میں بھی نم ہے دوستو
پانی کی طرح بہتا ہے اب مومنوں کا خوں
اک کربلا سا دوسرا یہ غم ہے دوستو
اے کاش معجزہ ہو غزہ کی زمین پر
اس درد کی دوا ہے نہ مرہم ہے دوستو
ملتا نہیں سبیلہ کو ءی حق شناس اب
نیت کے را ستے میں بہت خم ہے دوستو

ہفتہ، 20 دسمبر، 2014

اے میرے گھر کے چاند ترے سا تھ کیا ہوا -- سبیلہ انعام صدیقی

سبیلہ انعام صدیقی
معصوم کا کفن ہے جو خو ں میں بھرا ہوا
اے میرے گھر کے چاند ترے سا تھ کیا ہوا
کوئی بتادے لال کا میرے تھا کیا قصور
اسکول اس کا جانا ہی کیسے خطا ہوا
آنکھوں سے میرے بہتا ہے بے اختیار خون
دیکھوں گی کیسے چاند کا ٹکڑا کٹا ہوا
بے شک شہید ہے مر ا نو رِ نظر مگر
وہ بن ملے ہی ماں سے ہے جنت گیا ہوا
اے کاش ظا لمو تمھیں ا حساس ہو سکے
ما ؤں کی زند گی میں جو محشر بپا ہوا
طاقت کہاں وہ لفظ میں جو کرب کہہ سکے
غمگین ہو کہ دل مرا نوحہ سرا ہوا
اے ظا لمو سبیلہ کی دل سے ہے بد دعا
دیکھوگے اپنے باغ کو تم بھی جلا ہوا

جمعرات، 18 دسمبر، 2014

نعت ! تو صیف ِ محمد کے علا و ہ کیا ہے ۔۔ سید انور جاوید ہاشمی

سید انور جاوید ہاشمی
کیوں بتا تے ہو ہمیں اُ سو ہ ء حسنہ کیا ہے
نعت ! تو صیف ِ محمد کے علا و ہ کیا ہے
سیرتِ پا ک سے بڑ ھ کر کوئی اُ سو ہ ہے بھلا
ہم کو اِ س با ب میں پھر ا و ر سمجھنا کیا ہے
نا ز کیو ں کر نہ کر ے قو م ِ عر ب کی عورت
قسمت، ا ے د ا ئی حلیمہ تر ا رُ تبہ کیا ہے
بن گیا غا ر ِ حر ا مکتب ِ اُ و لی ٰ اُ ن کا
و ر نہ کہنے کے لیے غا ر میں ر کھّا کیا ہے
کعبہ ڈ ھا نے کو چلے ا بر ہہ، ہا تھی و ا لے
اُ ن کو معلوم نہ تھا ضِد کا نتیجہ کیا ہے
خُو د خُد ا ا و ر ملک صلِّ علی ٰ کہتے رہیں
ہا شمی ہد یہ تر ا کیا، تر ا د عو ی ٰ کیا ہے

جمعرات، 11 دسمبر، 2014

خوف زدہ ہیں گھر کی ساری دیواریں ۔۔ اوصاف شیخ

اوصاف شیخ
ٹھہر گیا ہے ایک ہی منظر کمرے میں
میں تیری تصویر ، دسمبر کمرے میں
میں، تیری یادوں کی بارش ، تیز ہوا
تنہا بھیگ رہا ہے بستر کمرے میں
میں دریا کے پار کی سوچ رہا ہوں اور
در آیا ہے ایک سمندر کمرے میں
لے آئی ہے گلیوں میں اک آگ مجھے
چھوڑ آیا ہوں ٹھنڈا بستر کمرے میں
خوف زدہ ہیں گھر کی ساری دیواریں
ڈیرہ ڈالے بیٹھا ہے ڈر کمرے میں
کون خزاں میں پھول کھلانے آیا ہے
کس کی خوشبو ہے یہ بنجر کمرے میں
آنگن میں ہے جاری رقص ہواؤں کا
سہما بیٹھا ایک قلندر کمرے میں
آنگن میں ہے سونے پن کا راج اوصاف
چیخ رہی ہے تنہائی ہر کمرے میں

جمعرات، 20 نومبر، 2014

پرانے مضامین اور استعاروں کو نئی جہت عطا کرنے والے لیاقت علی عاصم سے ایک مکالمہ

وہ ایک طوفانی رات تھی۔ موسلا دھار بارش ہورہی تھی۔
زمین سے آسمان تک ایک پردہ سا تن گیا۔ لہریں ہوائوں کے رتھ پر سوار ہوئیں، جن کی زد میں آنے والا ایک بحری جہاز منوڑا کے ساحل پر پھنس گیا۔ حادثات کی اس دنیا میں امید کا اکلوتا سہارا ’’سگنل ٹاور‘‘ تھا، جہاں اس رات فقط ایک شخص موجود تھا۔ ایک شاعر!
لیاقت علی عاصم کو وہ رات اچھی طرح یاد ہے۔ وہ ٹاور پر تنہا تھے، اور ایک بھاری ذمے داری اُن پر آن پڑی۔ اُنھوں نے فوراً شپنگ آفس میں واقعے کی اطلاع پہنچائی۔ طوفانی بارش میں امدادی کارروائی کا آغاز ہوا۔ بالآخر صبح تک وہ جہاز نکال لیا گیا۔ جب صورت حال قابو میں آگئی، سمندر شانت ہوا، تب ایک شخص نے ان سے سوال کیا،’’کس کے بیٹے ہو؟‘‘ جواب میں اُنھوں نے اپنے والد، حاجی علی کا نام لیا، جو علاقے کی جانی مانی شخصیت تھے۔ پوچھنے والے نے کاندھا تھپتھپایا۔ ’’حاجی علی کا بیٹا ہی یہ کام کرسکتا تھا!‘‘ اُس پل کیا احساسات تھے، اِس کا اندازہ ایک بیٹا ہی لگا سکتا ہے۔

جمعہ، 14 نومبر، 2014

بند گلی ۔۔ ایم زیڈ کنولؔ ۔لاہور

ایم زیڈ کنول
گرد راہ سفر کی پیمبر تھی جو
خضر رہ جان اس کو میں بڑھتی رہی
روشنی کے سفر پہ میں چلتی رہی
یک بیک میری آنکھوں میں نور آگیا
بن کے صحرا محبت کا طور آگیا
میں جولپکی تجلی کے دیدار کو
طور کو اس اد اپر غرور آگیا
کیسا دیدار تھا کُوئے اغیار کا
بزم ہستی میں ہرسُو سرور آگیا
جذب و مستی میں کھوئی اُلجھتی رہی
روشنی کے کفن میں بھٹکتی رہی
تھک کے بیدم ہوئی
پھر بھی پُر دم رہی
منزلوں کی طلب تھی
یا ذوق سفر