ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

بدھ، 29 جنوری، 2014

حلقہ اربابِ ذوق میں ڈاکٹر مبارک علی کا ”ادیب اور معاشرہ“ کے موضوع پر لیکچر

حلقہ ارباب ذوق لاہور کا ہفتہ وار خصوصی جلاس پاک ٹی ہاؤس میں منعقد ہوا۔ سیکرٹری حلقہ ڈاکٹر غافر شہزاد نے گذشتہ اجلاس کی کاروائی توثیق کیلئے پیش کی۔خصوصی اجلاس میں ڈاکٹر مبارک علی نے ”ادیب اور معاشرہ“ کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ اٹھارہویں صدی کی روشن خیالی کی تحریک میں ادیبوں کا انتہائی اہم رول رہا ہے۔


 اس وقت بادشاہی نظام کی جڑیں اکھڑ رہی تھیں، عوام کے اندر شعورو آگاہی پیدا کرنے میں صنعتی انقلاب کے نتیجے میں ہونے والی تبدیلیوں کے رد عمل کے طور پر فرانسیسی اور روسی ادیبوں نے ناول کی صنف کے توسط سے بطور خاص بہت موثر کردار ادا کیا۔ فرانس اور جرمنی کے تخلیقی کاروں نے افسانہ، ناول یا فلسفیانہ مضامین کی صورت میں بہت اعلی اور معیاری ادب تخلیق کیا۔ اس کے نتیجے میں معاشرے میں اجتماعی شعور بیدار ہوا جو انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ ادیب ریاست سے مل کر یا ریاستی عہدوں سے باہر رہتے ہوے معاشرے کی بہتری کا کام کر سکتا ہے۔

 پاکستان میں انجمن ترقی پسند مصنفین اور بعد میں اکیڈیمی آف لیٹرز کے حکو متی سطح پر قیام کی بھی یہی وجوہات تھیں۔ ادیبوں شاعروں کی سالانہ کانفرنسز اور اعزازت کا سلسلہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ہمارے ہاں بہت کم ادیبوں نے ریاستی اداروں کے اندر رہ کر ادب اور معاشرے کی خدمت کی ہے۔ادب برائے ادب یا ادب برائے زندگی کے مباحث مغرب سے درآمد کئے گئے تھے ورنہ ہمارے ہاں علمی و فکری سطح پر ایسے تضادات کی گنجائش نہیں تھی۔شاعری محض حظ اٹھانے اور وقتی طور پر جذبات ابھارنے کا کام کر سکتی ہے اس سے انقلاب نہیں آتے۔لیکچر کے آخر میں ڈاکٹر مبارک علی نے حاضرین کے سوالات کے جوابات دیئے۔ شرکاء میں فرحت عباس شاہ،علی نواز شاہ، ڈاکٹر امجد طفیل، حکیم سلیم اختر،کامران ناشط، ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ، زاہدہ جبیں راؤ، عابد فاروق، سلیم سہیل، احمد عطا اللہ، راشد طفیل، محمد احمد،فیضان رشید،علی کاظمی،فراست بخاری، اسد علی عابد، ڈاکٹر ابرار، علی حسن، فیصل اشرف خان، رضوان جمیل، عبد الرزاق، کامریڈ شفیق احمد شفیق،حمیدہ کشور چوہدری، شفیق احمد خان و دیگر شامل تھے۔اجلاس کے آخر میں معروف شاعر اور ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید پر حالیہ ہونے والے قاتلانہ حملے کے حوالے سے متفقہ طور پر قرار داد  مذمت پیش
کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ حملہ آوروں کو جلد از جلد گرفتار کیا جائےٓ۔



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں