ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

پیر، 13 جنوری، 2014

کیڑا۔ ستیہ پال آنند کی ایک نظم

(خواب میں خلق ہوئی ایک نظم)
'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
اپنے اندر اس طرح داخل ہوا وہ
جیسے رستہ جانتا ہو
جیسے اس بھورے خلاء کی
ساری پرتوں کو کئی صدیوں سے وہ پہچانتا ہو
اپنے اندر دُور تک جانے کی کیا جلدی ہے مجھ کو؟
اس نے خود سے پوچھ کر مونچھوں کو اپنی بل دیا
اور ہاتھ سے طرّے کو کچھ اونچا کیا۔۔
پھر خود سے بولا۔ "مردبچہ ہوں، مجھے جانا ہی ہو گا!
کون ہوں میں؟ بیج میری کیا ہے؟ کس دھرتی سے میں پیدا ہوا ہوں؟
آج مجھ کو جاننا ہو گاکہ میری بیخ کیا ہے ۔۔
روک مت مجھ کو
مری بیمار نبضوں کے مسیحا، ذہن میرے!"

گندمی رنگت کی ہلکی دھند یکدم
چھٹ گئی تو ایک منظر سامنے تھا
کلبلاتے لاکھوں کیڑے
تیرتے گدلی سی نالی میں، دُمیں اپنی ہلاتے
دوڑ میں مصروف آگے بڑھ رہے تھے!
کون تھے یہ؟ 
تیز رو اس قافلے کا وہ بھی شاید فرد ہی تھا
دوسروں جیسا، مگر ممتاز سب سے
"میرے بچنے کا یہی اک راستہ ہے ۔۔
دوڑ میں اوّل رہوں میں
اور منزل پر پہنچ کر
باقیوں کے واسطے حجرے کا رستہ بند کر دوں!"
وہ بہت تیزی سے آگے۔۔ اور آگے۔۔ اور آگے 
تیر کر منزل پہ پہنچا
۔۔۔۔۔۔۔
’’کھول آنکھیں! ایک ہی لمحے میں ساری زندگی دیکھے گا کیا تو؟‘‘
کوئی اس سے کہہ رہا تھا
(موت کا اندھا فرشتہ ہی تھا شاید!)
’’اور کیا کچھ دیکھنا باقی بچا ہے؟‘
اس نے پوچھا، 
" ایک کیڑا ہی تو تھا میں رحم ِ مادر کی نلی میں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں