ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

جمعرات، 10 اپریل، 2014

غزل ۔۔ افضال نوید

نشّۂِ مَرگ سَر چڑھا ہُوا تھا
افضال نوید
بَرسَرِگوَر گھر چڑھا ہُوا تھا
سُوئے صِحرا تھی خُون کی آندھی
ایک سُولی پہ سَر چڑھا ہُوا تھا
جان لیوا تھی بادۂ تخریب
دیدۂِ چارہ گر چڑھا ہُوا تھا
پھَل مِرے صبرو اِستقامَت کا
شاخ پر بے ثمَر چڑھا ہُوا تھا
ایک طُغیانی میں گِھرا دریا
آنکھ میں رات بھر چڑھا ہُوا تھا
ماہ و انجُم جھُکے تھے بستی پر
اور میَں بام پر چڑھا ہُوا تھا
ساتھ والے مکان کا شُعلہ
کھِڑکیاں کھول کر چڑھا ہُوا تھا
اُس کے اُوپر گُلال جیسے گُلاب
حلقہ سا تا کمَر چڑھا ہُوا تھا
مَیں چکاچوند سے نہ گھبرایا
لَوہے پر آبِ زر چڑھا ہُوا تھا
جب بھی دیکھا ہے میَں نے مِنبَر پر
شخص ِنامُعتبَر چڑھا ہُوا تھا
میرا دریائے عُمر ایک طرف
شہر سے بے خبَر چڑھا ہُوا تھا
بعد مُدّت کے اُس کو ہوش آیا
اُس پہ میرا اثَر چڑھا ہُوا تھا
روزن ِ آسماں کھُلا تھا نوید
گھر کا گھر بام پر چڑھا ہُوا تھا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں