ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

بدھ، 24 ستمبر، 2014

آفاقی شعور اقبالؔ کے بعد مجید امجدؔ ہی کی نظم میں پوری طرح اُجاگر ہوا ہے ۔۔ تحریر وترتیب شکیل قمر

مجید امجدؔ نے جس آفاقی شعور کا مظاہرہ کیا ہے وہ اقبالؔ کے بعد مجید امجدؔ ہی کی نظم میں پوری طرح اُجاگر ہوا ہے       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
تحریر وترتیب شکیل قمر۔ بلیک پول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بر صغیر پاک و ہند کے اُدباء اور شعراء میں مجید امجد کوئی پہلا نام نہیں ہے جو معاشرے کی بے رحمی کی بھینٹ چڑھا ہو،تایخء اُردو اَدب اُٹھا کر دیکھ لیں تو آپ کو ایسے لوگوں


کی ایک لمبی فہرست مل جائے گی جنہوں نے اپنی ساری زندگی یا تو شعر و اَدب کی معارف پروری میں بِتادی یا پھر اس فن کی خدمت کرتے کرتے خود کو فناکرلیا مگر دوسری طرف اس معاشرے نے اُن کے احسانوں اور خدمات کا یہ صلہ دیا کہ خود  انسانیت بھی اُس پر شرم سار دکھائی دیتی ہے،مجید امجد ایک پڑھے لکھے مہذب اور شریف النفس انسان تھے جنہوں نے اپنی ساری زندگی شعرو اَدب کی بے لوث  خدمت کرتے ہوئے گزاردی،آپ بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ زمانے کی چالاکیوں اور مکاریوں سے نابلد ایک سچّا فن کار جسے اپنے فن کے ساتھ عشق کی حد تک لگاؤ  ہو اور اسی لگاؤکی وجہ سے وہ زمانے کی فروعی آسائشوں سے بہت دور ہو،بھلا اپنے حق کے لئے کب چیخ و پکار کرتا ہے،آج کے دور کے مطابق ایک بہترین سرکاری ملازمت ہونے کے باوجود ساری زندگی وہ ایک کرائے کے کوارٹر میں تن تنہا زندگی بسر کرتے رہے، ساہیوال جیسے علاقے میں فوڈ انسپکٹر کے عہدے پرفائزہونے کے باوجود اُن کے پاس صرف ایک پرانا سا بائیسکل تھا جس پر شائد ہی کسی نے اُنہیں سواری کرتے ہوئے دیکھا ہو وہ بائیسکل کے ہینڈل کو ایک ہاتھ سے پکڑے ہوئے ایسے پیدل چلتے تھے جیسے کوئی بچے کی اُنگلی پکڑے ہوئے اُس کے ساتھ ساتھ چلتا جارہا ہو،چونکہ وہ زمانہ ساز نہ تھے شائد اسی لئے اُن کی ازدواجی زندگی کا سفر کوئی زیادہ دیر نہ چل سکا اُن کی شریک ِ حیات ایک سکول ٹیچر تھیں،مگر وہ زیادہ دیراکٹھے نہ رہے، لہذامجید امجد ؔاکیلے ہی زندگی کی گاڑی کو گھسیٹتے رہے،ممتاز ادیب اور سکالر ڈاکٹرخواجہ محمد ذکریا مجید امجد کے بارے  میں لکھتے ہیں کہ               
  مجید امجد بہت کم گو،شرمیلے اور تنہائی پسند تھے اپنی ذات اور شاعری کے بارے میں قطعاًگفتگو کرناپسندنہیں کرتے تھے،حقیقی معنوں میں اُن کا کوئی دوست نہیں تھا،وہ ملنے جُلنے والوں سے ذاتی معاملات پر کبھی گفتگو نہیں کرتے تھے انتہائی دیانت دار  اور خودارتھے۔
ذرا اندازہ لگایئے جو شخص ساری زندگی سرکاری ملازم رہا ہو اور وہ بھی”فوڈانسپکٹر“اُس کے پاس نہ اپنا گھر ہو نہ گاڑی ہو اور نہ ہی کوئی دوسری جائیداد،کتنا خود دارہو گا وہ انسان!   ۔  مجید امجد ریٹائرہوئے تو معا شرے کا وہی ظُلم اُن کے ساتھ بھی روا رکھا گیا جو لاکھوں 
 دوسرے سرکاری ملازمین کوریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کے حصول کے لئے در پیش ہوتا ہے، نجانے اُنہوں نے اے،جی،آفس،لاہور  کے کتنے چکر لگائے ہوں گے اور نجانے اُن سے کتنی مرتبہ اس کام کے لئے رشوت طلب کی گئی ہوگی، اور میری عقل یہ با  ت تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ مجید امجد جیسے اُصول پرست انسان نے اس سلسلے میں کوئی غیر قانونی قدم اُٹھاتے ہوئے کسی عقل کے اندھے کو اپنی  پنشن لینے کے لئے کوئی رشوت دی ہو،اور ظاہر ہے کہ رشوت کے بغیر اے،جی،آفس،لاہور سے پنشن وصول کرنا ناممکن کاموں میں سے ایک کام ہے۔                                    ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا لکھتے ہیں کہ۔
 ”مجید امجد کوپنشن بہت دیر سے ملی اِس لئے نوبت فاقہ کشی تک جا پہنچی تھی۔
بہر حال یہ تو میں خود بھی   جانتا ہو ں کہ مجید امجد کی موت انتہائی کسم پُرسی کی حالت میں واقع ہو ئی تھی یہ ذوالفقار علی بھٹو کا دور تھا اِنہی دنوں حکومتِ بلوچستان نے ”بنگلہ دیش نامنظور تحریک“کے سلسلے میں مجھے کوئٹہ (بلوچستان)سے صوبہ بدر کیا تھا اور میں ساہیوال میں نیا نیا پناہ گزین ہوا تھا،شعر واَدب سے شغف ہونے کی وجہ سے ساہیوال کے شعراء اور ادیبوں سے نئی نئی ملاقاتیں تھیں انہی دنوں معلوم ہوا کہ مجید امجد کی طبیعت ناساز ہے اور وہ زیادہ تر اپنے گھر پر ہی رہنے لگے تھے، اچانک اِسی عالم میں ۱۱  مئی ۴۷۹۱ء کومجید امجد نے اپنے کوارٹر واقع فرید ٹاؤن ساہیوال میں وفات پائی اُس سے اگلے روز اُن کی میّت جھنگ لے جائی گئی جہاں اُن کی تدفین  ہوئی اُن کی لوحِ مزار پر اُنہی کا یہ شعر کندہ  ہے۔
کٹی ہے عمر  بہاروں  کے  سوگ میں امجدؔؔ ؔ 
                                       میری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول
  مجید امجد کی و  فات کے تقریباًپینتیس سال بعدایک اور رونگٹھے کھڑے کر دینے والا انکشاف ہواکہ مجید امجدآخری وقت میں فاقہ کشی اور بیماری کی وجہ سے اس قدر لاغر ہو چکے تھے کہ وہ تن تنہااپنے کوارٹر میں موت اور زندگی کی جنگ لڑتے رہے غالباً اُن کی زندگی کے وہ آخری لمحات ہوں گے جب ایک ادیب اور شاعرمسٹر ب، م مجید امجد سے ملنے کے لئے اُن کے کوارٹر پر گئے اورکافی دیر تک دروازے پر دستک دیتے رہے مگر اندر سے کوئی جواب نہ آیا آخر کار مسٹر ب،م نے کوارٹر کے عقب میں واقع ایک کھڑکی پرجاکر دستک دی اور زور زور سے مجید امجد کا نام پکارا تو کافی دیر کے بعد اندر سے مجید امجد کی آواز آ ئی وہ بڑی نحیف سی آواز میں کہہ رہے تھے کہ۔”میں اُٹھ کر دروازہ نہیں کھول سکتا مجھ میں ہمت نہیں ہے“تو اس پر مسٹر  ب، م واپس چلے گئے اگلے روز معلوم ہوا کہ مجید امجد کا انتقال ہو گیا ہے۔مسٹر  ب، م  نے شرم اور ندامت کے مارے یہ بات کسی سے نہیں کہی مگر آخر کار اُن سے یہ تلخ سچ چھپایا نہ گیا اور پینتیس سال بعد ایک راز دار دوست کے ذریعے یہ سچ ادبی حلقوں تک پہنچ ہی گیا۔نجانے مجید امجد نے اپنے وہ آخری آیام تن تنہا کس کسم پُرسی کی حالت میں گزارے ہوں گے،شائد اگر  مسٹر ب، م  دروازہ پھلانگ کر کوارٹر میں داخل ہو جاتے تومجید امجد کے آخری لمحات میں اُن کی کسی قسم کی کوئی مدد ہی ہو جاتی مگر اَب کیا 
ہو سکتا ہے سوائے افسوس کے،  اُردونثروشاعری کی دنیا میں جو نابغہء روزگار ہستیاں پیداہوئی ہیں اُن  میں ایک نام حضرت مجید امجدؔ مرحوم کا بھی ہے مجید امجدؔ اُردو کے بلندپایہ شاعر تھے جنہیں اُنکی زندگی میں تو انتہائی نظراندازکیا گیا مگر اُنکی وفات کے بعد اُردو اَدب کے حلقے اپنی لاپرواہی کا کفارہ ادا کرنے کے لئے سرگرمِ عمل ہوگئے،ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریالکھتے ہیں کہ۔
”امجدؔ بڑے وسیع المطالعہ تھے بالخصوص فارسی اور انگریزی شاعری پر اُنہیں عبور حاصل تھاسائنسی علوم کے مطالعے سے بھی شغف تھا“
مجید امجدؔ کے بارے میں اُردو کے ممتاز محقق ڈاکٹرسید عبداللہ لکھتے ہیں کہ:۔
    ” میں نے بہت کم شاعر ایسے دیکھے  ہیں جن کے یہاں زندگی کی ہولناک سنجیدگی اور مقدر کی ستم آرائی کے ایسے دردناک تصورات
   موجود ہوں اِس کے باوجود اس کے قاری کا مجموعہ تاثرا  نبساط میں اتنا ڈوب کر باہر آتا اور مطمئن ہوتا ہو جتنا امجدؔ کے کلام سے ہوتا
    ہے۔امجدؔ زندگی کو بِس بھرا  رس کہتا ہے مگر اس کے کلام میں رس رچا ہوا ہے کہ  بِس کی تاثیر منفی ہو جاتی ہے۔“
  اردو کے ممتاز ادیب وشاعر ڈاکٹر وزیر آغا  فر ماتے ہیں کہ:۔
      ”مجید امجدؔ نے جس آفاقی شعور کا مظاہرہ کیا ہے وہ اقبالؔ کے بعد مجید امجدؔ ہی کی نظم میں پوری طرح اُجاگر ہوا ہے اس فرق کے ساتھ
      کہ اقبالؔ کا رویہ فلسفیانہ ہے جبکہ مجید امجدؔ نے سائنسی سوچ سے استفادہ کیا ہے۔“
  ممتاز شاعر شہزاد احمد مجید امجدؔ کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں کہ:۔
  ”میراجیؔ،فیضؔ،اور راشدؔ نے اپنے مکاتب فکر کو جنم دیا ہے۔اس عہد کے   بیشتر  لکھنے والے ان تینوں میں سے کسی نہ کسی کے پیچھے لمبی
  قطاروں میں کھڑے ہیں مگر مجید امجدؔ نے نہ کسی کی تقلید کی ہے اور نہ کسی کو اپنی تقلید کی ترغیب دی ہے۔مجید امجدؔابھی تک بہت نیا ہے جبکہ
  میراجیؔ،فیض اورراشدؔپرانے ہوچکے ہیں۔“َ
  ممتاز دانش ور امجد اسلام امجدؔ مجید امجدؔ  کے بارے میں اپنے تاثرات یوں بیان فرماتے ہیں کہ:۔
    ”نئی نظم اور آزاد نظم کے سلسلے میں کچھ سکہ بند نام باربار دہرائے جاتے ہیں لیکن میرے نزدیک ان سب سے زیادہ اہم اور دوررس
  اثرات کا حامل کام مجید امجدؔ نے کیا ہے۔ان کی شاعری کے موضوعات،تکنیک،نظم کی فکری اور فنی ترتیب،نئے اسالیب کی طرف بے 
  جھجک پیش قدمی اور سب سے بڑھ کر زندگی بھر ایک نئے لہجے کی تلاش کا عمل وہ  بنیاد ہیں جن پرچل کر مستقبل کی شاعری کو اپنے کاخ و کو بلنگ کرنے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں