ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

اتوار، 9 فروری، 2014

نقاد کا ناروا رویہ ،یعقوب تصور کی شاعری

ادب میں نقاد کا کردار ایسے باپ کا ہوتا ہے جوکھانا کو سونے کا نوالہ دیتا ہے لیکن دیکھتا شیر کی نگاہ سے ہے،پاکستان میں
تو ہم یہی دیکھتے آئے ہیں یہاں ادب میں ایسا ہی ہوتا ہے۔نقاد کی تنقید پر اگر کوئی رائے زنی کرتا ہے تو نقاد اسے خندہ پیشانی سے برداشت کرتا ہے۔اپنے ظفر اقبال ہی کو لے لیجئے،شاعری کرتے ہیں،کالم لکھتے ہیں،اپنے تیئں سب کے لتے لیتے ہیں حتی کہ انہوں نے غالب کو بھی نہیں چھوڑا،اپنے نکتہِ نظر سے ان کی شاعری میں بھی فنی نقائص نکال لئیے۔یہ خیر ان کا ایک پہلو ہے دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ فنی اعتبار سے جو چیز انہیں پسند آ جائے تو تعریف کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتے خاص طور پر نوجوان نسل کو ان کی تربیت


کے لئے داد بے داد کرتے رہتے ہیں۔یہ بھی ان کا ظرف ہے کہ اپنی شاعری پر ہونے والی بے داد کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہیں۔یہی نقادانہ رویہ ہوتا ہے۔ہم اسی قسم کے رویے کو ادب کے نکھار کے لئے بہتر سمجھتے ہیں،لیکن ہمیں اس وقت بیحد افسوس ہوا جب ہندوستان سے نوجوان نسل کے نمائیندہ ناول نگار رحمن عباس نے اپنا ایک خط جو انہوں نے نامور نقاد اور ناول نگار شمس الرحمن فاروقی کے نام تحریر فرمایا اور اس کی ایک کاپی ہمیں بھی ارسال کی۔رحمن عباس کا کہنا ہے کہ میری کتاب،،اکیسویں صدی میں اردو ناول اور دیگر مضامین،،اسی سال جنوری میں شائع ہوئی۔کتاب میں شامل ایک مضمون،،اکیسویں صدی میں اردو ناول،، رسالہ شاعر کے اکتوبر میں شائع ہوا تھا،جس میں شائستہ فاخری،ترنم ریاض،ثروت خان،صادقہ نواب،نورالحسین،عبدالصمد،علی امام نقوی،مشرف عالم ذوقی،پیغام  آفاقی،غضنفر،خالد جاوید، جیتندر بلو، شمس الرحمن فاروقی اور چند دیگر ناول نگاروں  کی تخلیقات پر ناول کے آرٹ اور موضوع کے تنوع کے اعتبار سے انصاف کرنے کی کوشش کی۔کتاب کا انتساب میں نے وارث علوی،گوپی چند نارنگ،شمس الرحمنٰ فاروقی اورشمیم حنفی کے نام کیا جنکی تحریروں نے انہیں تنقید کی راہ پر گامزن کیا،میں نے اپنے ان بزرگوں سے ہی تنقید میں صاف گوئی اور حق بات کہنا سیکھا ہے،تنقید میں اگر اختلافِ رائے نا ہو،تنقید ایمانداری اور خلوص پر مبنی نہ ہو،تو وہ تنقید نہیں ایک طرح کا غیر ادبی کاروبار ہے۔میری کتاب حق بات کہنے کی ایک کوشش ہے،ہو سکتا ہے چندآرا سے قاری کو اختلاف ہو،
رحمنٰ عباس مزید لکھتے ہیں کہ خدا جانے شمس الرحمنٰ فاروقی کو میری صاف گوئی پر اتنا غصہ کیوں آیا ہے  میں تو ان کے سامنے طفلِ مکتب ہوں،اگر میری رائے انہیں بری لگی تھی تو تو مجھ نئے لکھنے والے  کو نظر انداز کر سکتے تھے، رحمن عباس کہتے ہیں میں نے تو صرف فاروقی صاحب کے ناول کو تاریخی ناول کے زمرے میں رکھتے ہوئے لکھا ہے کہ  تاریخی مآخذات سے معلومات لے کرناول لکھنا محنت و مشقت کا کام ہے اور اچھا کام ہے۔اردو میں تاریخی ناولوں کیاپنی ایک روایت ہے اور اس رویت کے آئینے میں فاروقی کی یہ کتاباس روایت کو آگے بڑھانے  سے عبارت ہے،افسوس یہ ہے کہ اس ناول کو عظمت کا تاج پہنانے کی کوشش کی گئی جو سراسر حماقت تھی۔تاریخی ناولوں کو تاریخی ناولوں کے احاطے میں دیکھا اور پرکھا جائے تو بہتر ہے۔رحمنٰ عباس یہ بھی کہتے ہیں کہ میں نے  یہ بھی لکھا ہے کہ فاروقی صاحب نے  ولیم ڈیلر مپل کی کتابوں سے استفادہ کیا ہے،جس کا انکشاف خود فاروقی نے اپنی کتاب میں کیا ہے،۔تاریخی ناول اردو اورانگریزی میں بہت لکھے گئے ہیں،ہندوستان میں ولیم ڈیلر مپل کے ناول بھی مشہور ہیں،میں نے  ولیم ڈیلر مپل کی چار کتابوں کے نام بھی لکھے ہیں۔خبرنامہ شب خون میں میرے مضمون کے اس حصے میں ادارہ کے حاشیے تلے مجھے دھمکی دی گئی ہے کہ،،افسوس کہ ولیم ڈیلر مپل  کی محولہ بالا کتابوں میں کوئی بھی کتاب ناول نہیں ہے، The city of djinnsتو مضامین کا مجموعہ ہے،باقی سب تاریخ کی کتابیں ہیں،ہمارے نوجوان مصنف کا یہ بیان اگر ولیم ڈیلر مپل کو بھیج دیا جائے تو کیا عجب کہ وہ ہمارے نوجوان مصنف پر ازالہ ِ حیثیتِ عرفی کا دعوی ٰ کریں،خود نوجوان مصنف کا مبلغ علم بھی ان باتوں اور مادام  بواری کے افسوس ناک حوالے سے صاف کھل جاتا ہے،،
رحمنٰ عباس کہتے ہیں کہ میرے مضمون پر یہ ردِعمل ایک نئے لکھنے والے کو ڈرانے اور حق بات لکھنے سے روکنے کی ایک کوشش ہے،ساری دنیا جانتی ہے کہ ولیم تاریخ دان ہیں لیکن انہوں نے تاریخ فکشن کے فارم میں لکھی ہے، اس کتاب کو مجموعہِ مضامین کہہ کر  مجھے ازالہ حیثتِ عر فی سے ڈرانے کی کوشش کی گئی ہے ،انگریزی میں ان کتابوں کو narrative historyبھی کہا جاتا ہے،عام قاری کے لئے ولیم کی کتابیں ناول پڑھنے سے عبارت ہیں، رہی باتThe city of djinnsکی تو یہ مضامین کا مجموعہ نہیں بلکہ travelogueہے،اس کتاب میں ولیم نے دلی کی قدیم تہذیبی اور ثقافتیروایت کو تعمیر کرنے کی کوشش کی ہے، اور یہاں بہت سارے کردار بھی ملیں گے۔ازالہ حیثتِ عرفی کا اطلاق تو اب شب خون پر بھی ہوتا ہے کیونکہ اس نے بھی سفر نامے کو مضامین کہا ہے۔
ہمیں رحمنٰ عباس کے اس خط اور شمس الرحمن فاروقی کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کرنا لیکن اتنا ضرور بیان کرنا ہے کہ شمس الرحمن فاروقی کی جانب سے اس قسم کا رویہ کوئی نئی بات نہیں ہے،اس سے پہلے پاکستان کے ایک جید افسانہ نگار،ناول نگار،تنقید نگار پر بھی ِ،شب خون، مار چکے ہیں اور ان کی جانب سے بھی  جوابِ آن غزل بہت کچھ سن چکے ہیں،ہمارا تبصرہ اس لئے نہیں بنتا کہ متاثرہ فریق خود انہیں آئینہ دکھا چکے ہیں 
سیپیوں کی قید میں 
اور اب  کچھ ذکر ایک کتاب اور اس کے مصنف کے بارے میں ہو جائے۔کتاب ہے سپیوں کی قید میں اور  اس کے شاعر ہیں متحدہ عرب امارات میں مقیم یعقوب تصور۔
محبت کے میٹھے اور رسیلے جذبے یعقوب تصور کی شاعری کا ایک رخ ہیں۔ وہ محبت جو  دھیمے سروں میں دل و دماغ پر قبضہ کرتی ہے اور پھر فضائیں اسی محبت میں گونج کر رہ جاتی ہیں۔ یعقوب تصور  کے ہاں محبت کا تصور یک طرفہ ہے۔ وہ اس تصوراتی محبت کے سراب کے اسیر ہیں۔ یقین اور بے یقینی کے اس احساس نے ان سے تیقن چھین لیا ہے۔
شام گن لئے تارے تو شب گذاری کو
ہم اس کے عہدِشکستہ شمار کرتے رہے
کچھ اس طرح ہوئے ہم انتظار کے عادی
اگروہ آ بھی گیا انتطار کرتے رہے
یعقوب تصور  کے  اب تک پانچ مجموعہ کلام،، سیپیوں کی قید میں،،پیش رفت،، انحراف،، ہائیکو کا مجموعہ،، صحرا میں جگنو،، اور نعتیہ مجموعہ،، صراطِ مستقیم،، شائع ہو چکے ہیں۔ان مجموعہ ہائے کلام کی بنیاد گردوپیش کی شاہتیں ہیں، نفرتیں ہیں، اپپنے دکھ ہیں،اپنے سکھ ہیں،وقت کا جبر ہیں اور چکی کی مشقت ہے۔
صحراؤں میں عمر ہماری ریت ہوئی
گھر والوں نے تاج محل تعمیر کیا
یعقوب تصور جذبات و احساسات کا بیباک اظہار کرتے ہیں۔یہ لا شعوری فکر ہے جس نے محبت کے علاوٗہ زندگی کے ہر رخ کی بے رحمی کو بہت سادگی سے صفحہِ قرطاس پر بکھیر دیا ہے۔
نئے شالے، دوشالے دیکھ لینا
یہ چھومر اور جھالے دیکھ لینا
تحائف، جب نرالے دیکھ لینا
مرے ہاتھوں کے چھالے دیکھ لینا
بیرون ملک جا بسنے والے افراد خاص طور پر ان افراد کے ہاں جو سچے شعری رویوں کا ادراک بھی رکھتے ہوں۔ ہجرت کا استعارہ بہت طور دکھائی دیتا ہے۔ میں نے کہیں کہا تھا کہ پہلی جبری ہجرت تخلیقِ کائنات کے فورا بعد ہوئی جب آدم نے ربِکائنات کی حکم عدولی کی۔ہجرت کے اس تصور کو یعقوب تصور نے کیا خوب باندھا ہے۔
عرش سے فرشِ زمیں تک کا سفر
عین فطرت  تھا فسانہ  بن گیا
اپنی  منزل  تو تصور تھی  یہی
دانۂ ِ گندم  بہانہ  بن  گیا
ہجرت کا دکھ محسوس کرنا اپنی جگہ لیکن اس کا شعری اسلوب مین اظہار تعلی ہے۔
مسافرت کی صعوبت میں عمر بیت گئی
بچی تو پاوئں کے کانٹے نکالتے گذری
ہجرت کی وجوہات کچھ بھی ہوں ایک گہری فکر رکھنے والا شاعر جب اظہارِ ذات کرتا ہے تو اس کے لہجے کی تھکن اس کی طویل مسافرت کا پتہ دیتی ہے۔
زندگی کے تجربوں نے یعقوب تصور  کو اس سوچ سے آشنا کر دیا ہے جو سچے شعری رویوں کی احساس ہے۔
وطن عزیز کے حالات ہر حساس شخص کی مانند یعقوب تصور کو بھی پریشان اور خوف زدہ رکھتے ہیں۔
چمن میں اپنی  خوشی کا سماں رہے کیسے
حنوط ہوں  جو پرندے  تو چہچہے  کیسے
نظام ِامن ہے ہر سمت  کار  فرما  اگر
تو ہر درخت سے لپٹے ہیں اژدھے کیسے
زندگی کی تلخ حقیقتیں اپنی جگہ لیکن یعقوب تصور  نے زندگی مثبت جہتوں کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا ان کی مثبت سوچ اور رجائیت پسندی ان کی شاعری سے جا بجا ٹپکتی ہے۔
آ  کے ہر  صبح  یہ  دیتا  ہے  دلاسے  سورج
ہے اندھیروں کے تعاقب میں سدا سے  سورج
روشنی ہوگی ہر اک سمت یقیں ہے لیکن
سرَ نکالے ذرا بادل کی ردا سے سورج
میں نے شروع میں کہا تھا کہ محبت کے میٹھے اور رسیلے جذبے یعقوب تصور  کی
 شاعری کا ایک رخ  ہیں لیکن اظہار ذات میں انہیں تیقن حاصل نہیں ہے۔
دل جو روتا ہے تو چہرے پر سجا لوں  خوشیاں 
درد سینے میں نہ ہو، آنکھ میں آنسو پالوں 
میں ممثل تو نہیں ہوں کہ بہ رنگ تمثیل
اپنا کردار کہانی کے مطابق ڈھالوں 
ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، یعقوب تصور کی شاعری کے بارے میں کہتے ہیں کہ یعقوب تصور کی سچی اورکھری شاعری مجھے زندگی کے اعتبار اور توقیر میں اضافہ کرتی نظر آتی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں