ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

پیر، 24 فروری، 2014

عطا تراب کی ''بارش میں شریک''

شاعری اور مصوری جذبات و احساسات کے اظہار کے بہترین ذرائع ہیں۔۔اور احساسات و کیفیات کے اظہار کی ان دونوں جمالیاتی اصناف "شاعری " اور "مصوری " سے مجھے ہمیشہ سے ہی عشق رہا ہے۔یوں کہیں کہ میرے خون میں شامل ہیں۔ 
جب شاعری اور مصوری یک جان ہوجائیں تو عجب جمالیاتی منظر پیش کرتے ہیں جیسے رنگ و روشنی کی حسین کن ِمنِ۔اور ایسی بارش میں شریک ہونے کا اپنا ہی 
تبصرہ نگار: ناز بٹ

لطف ہے۔
عطا تراب کے شعری مجموعہ "بارش میں شریک" کی قرآت روحانی اور بصری تسکین کا باعث بننے کے بے شمار محاسن 
رکھتی ہے۔
"بارش میں شریک "ایک شاندار اور نفیس کتاب ہےجو تجریدی آرٹ کا سا خوبصورت منظر و مزاج رکھتی ہے۔ حرف و رنگ کا یہ حسین امتزاج ایک خوبصورت شاعری کا افقِ تازہ پیدا کرتا ھہے۔ عطا تراب کے خوبصورت الفاظ کو نہایت مہارت اور سلیقے سے فائزہ خان نے خوشنما رنگوں کا پیرھن عطا کیا ھے۔ 

میں ایک شاعرہ کی حیثیت سے عطا تراب کے لفظوں کی گہرائی میں اترتی ہوںاور ایک مصورہ کی حیثیت سے رنگ و روشنی کے مفہوم اور زبان تک پہنچتی ھوں تو لفظ و رنگ کے درمیان پائی جانے والی ھم آھنگی یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ھے کہ داد عطا تراب کے لفظوں کو دی جائے یا مصورہ کے فن کو ۔
اس کتاب میں جتنی اھمیت عطا تراب کے لفظوں کی ہےاتنی ہی اھمیت فائزہ خان کے رنگ و تخیل کی بھی ہے۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دونوں ایکدوسرے کو سپورٹ کر رہےہیں۔
عطا تراب بہت حساس شاعر ہےاور اس کی یہ حساسیت اس کے لفظوں سے عیاں ہے۔عطا تراب کی شاعری زمین سے جڑے ہوئے مسائل کی ماھرانہ صورت گری ہے۔
عطا تراب کی شاعری سماجی نا ھمواریوں کے خلاف احتجاج بھی ہے،جبکہ کہیں کہیں بغاوت کا احساس بھی سر اٹھاتا ہے جو اس آگہی کا پتا دیتا ہے کہ سچا شاعر اپنے خارج میں بپاہونے والے آشوب سے بے خبر نہیں ہوتا۔سو میں کہہ سکتی ہوں کہ جمال میں اتری ہوئی عطا کی شاعری عصری اور نفسیاتی مسائل کا عمدگی سے احاطہ بھی ہے۔
عطا تراب بخوبی جانتا ہےکہ اس نے اپنے لفظوں،اپنی شاعری سے کیا کام لینا ہے۔اسی لئے وہ کہتا ہےکہ ۔۔۔۔۔۔۔
 تراب مقتل میں زندگی کا ھنر تمہی کو عطا ہوا ہے
لکھو کہ دل کی بھڑاس نکلے
لکھو کہ سہمے ھوؤں کا خوف و ھراس نکلے
میں عطا کی شاعری کے ان نئے زمانوں کی منتظرہوں جب وہ اپنے اساسی جذبات کے ساتھ تازہ کار جمالیاتی لشکر کشی کرے گا ۔
عطا تراب کی ب''ارش میں شریک ،،سے چند نظمیں اور اشعار۔۔۔۔۔۔
انتظار
نگاہ ِ حزن کو خبر نہیں
کہ دشت ِ نینوا میں
ایک اشک ِ بے نوا
ہنوز چشم ِ گریہ کُن کو رو رھا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیلتہ القدر

ھزار راتوں سے جو فضیلت میں بیشتر ہے
وہ نیک شب ہے
کہ جس میں پریاں نزول کرتی ہیں
مرغزار ِ بدن پہ بوسوں کی نرم رم جھم  میں
رقص کرتی ہیں تتلیاں جو
لہو کی موجوں سے دھڑکنوں کے پیام لیتی ہیں
تھام لیتی ہیں
ڈگمگاتے ہوئے دلوں کو نفس کی حوریں
بکھرتی زلفوں کے زیر ِ سایہ
امور ِ ہستی سنورتے جائیں
اذان ِ فرقت تلک فرشتے
قطار اندر قطار پیہم 
درود بھیجیں  ، سلام بھیجیں
ہزار راتوں سے جو فضیلت میں بیشتر ھے
وہ اپنی لیلی کی قدر دانی کی ایک شب ہے
وہ نیک شب ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Blasphemy 
یہ کیسی پاک دھرتی ہے
جہاں شب کے پجاری
قتل کے فتوے اٹھائے 
دندناتے
نور کی آیات پڑھتے
جگنوؤں کا خون کرتے ہیں
منادی ہے
کہ جگنو جگمگاتے ہیں
تو سورج دیوتا کی شان و شوکت
ماند پڑتی ہے
میں شرمندہ سا باشندہ
مسلسل سوچ میں گم ہوں
جنہیں جگنو نہیں بھاتے انہیں سورج سے کیا نسبتْٓ !!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تدریجی نسل کشی
دھواں دھواں ہے زندگی
نفس نفس میں زھر کے ہیں ذائقے گُھلے ہوئے
یہ خودکشی عجیب ہے
کہ اپنی آتی نسل کی ہے مرگ پہ تُلے ہوئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچی کے اسقاط پر
تم نے وہ تصویر مٹا دی
جس میں دھرتی ماں کے دلکش رنگ بھرے تھے فطرت ہے
تم نے اپنی ماں سے خیانت کی ہے اُف !!
تُم پر تُف !!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لکھو
قلم قبیلے کے ہاتھ شل ہیں
سخن طرازوں کو چپ لگی ہے
کہ مال و زر کو سدا غنیمت سمجھنے والی سپاہ ِ دھشت
دیار ِ خوشبو کو سخت نرغے میں لے چکی ہے
سپاہ ِ دھشت کے مورچے ھیں سفید گنبد
کہ جن کے ہر اک بلند گُو سے
فضا میں مہلک خدنگ پھینکے گئے ہیں
جن پر ادق عبارات مندرج ہیں
غضب تو یہ ہے
کہ سادہ لوحوں کو مرگ ناموں پہ آسمانی ہدایتوں کے گمان ٹھہرے
تراب مقتل میں زندگی کا ھنر تمہی کو عطا ہوا ہے
لکھو کہ دل کی بھڑاس نکلے
لکھو کہ سہمے ھوؤں کا خوف و ھراس نکلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرب ِ تخلیق
تم نیند کی کشتی والوں کو
اے کاش کبھی معلوم تو ہو
کس طرح سویرا ہوتا ہے
اس رات کے کالے ساگر میں
ہم تارہ تارہ تیرتے ہیں
اور اپنی بھیگی پلکوں سے
لمحوں کی کرنیں چنتے ہیں
تب جا کے سورج بنتا ہے
اور تم انگڑائی لیتے ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افلاتعقلون
ہمارے علم کی اوقات ہی کیا ہےہ
ہماری آنکھ لامحدود کو معدوم کہتی ہے
ہر اک موجود کو محدود کہتی ہے
مگر محدود ھونے کی بھی کوئی حد نہیں ہوتی
تعدد کی اکائی ہے
تنوع میں جو کثرت ہے
وہ ہر اک سمت میں پھر سلسلہ در سلسلہ
کروٹ بدلتی ہے
خرد
امکان ِ دانش کا
وہ بحر ِ موجزن ہے
جس کا ساحل دور ھٹتا جا رھا ہے دمبدم
امکان ِ واجب کا دریچہ
ممکنہ حد تک کھلا ہے
اور یہاں جب بات بڑھتی ہے
تو پھر بڑھتی چلی جاتی ہے
خود نظم ِ جہاں بھی اک نظم ہے
جس کی نظریں حدوں سے اوجھل ہیں
ہمارے علم کی اوقات ھی کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 عطا تراب کی غزلوں سے چند منتخب اشعار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند سکوں کی طرح ہیں یہ شمردہ سانسیں
زندگی بھیک ہے اور جسم کے کشکول میں ہے
اے خدا تو بھی اسے بانٹ نہیں سکتا کیا؟
وہ اداسی جو برابر مرے ماحول میں ہے
دھڑکتے دل مجھے دل سے پسند ہیں لیکن
میں سوچتے ہوئے اذہان کا پُجاری ہوں
کم ظرف کوزہ گر نے نمائش کے شوق میں
ہستی کے چاک پر بڑی مٹی خراب کی
قامت ِ حسن کا اندازہ لگا کر دیکھیں
آسمانوں میں بھی دروازہ لگا کر دیکھیں
بازگشت اپنی ہی آواز کی الہام نہ ہو
وادی ء ذات میں آوازہ لگا کر دیکھیں
مرے نصیب میں کب ہیں مرے خدائے سخن
وہ چند حرف جو دائم ہوں ماورائے سخن
یہ کم نصیبی بھی کم کم نصیب ہوتی ہے
تری تلاش میں نکلے تو ڈھونڈ لائے سخن
کبھی کبھی تگ و دو سے بھی لفظ ملتے نہیں
کبھی کبھی تو عطا ہوں بنے بنائے سخن
اس کے لبوں پہ رات کہانی غضب کی تھی
جذبات بہہ رہےتھے روانی غضب کی تھی
اس کا بدن تھا میر کا مصرع بنا ہوا
ہم میں بھی جستجوئے معانی غضب کی تھی
تنہائیوں کے دشت میں بھاگے جو رات بھر
وہ دن کو خاک جاگے گا جاگے جو رات بھر
وہ دن کی روشنی میں پریشان ہو گیا
سلجھا رہا تھا بخت کے دھاگے جو رات بھر
وہ ایک ہو کے بھی ہم سے گنا نہیں جاتا
وہ ایک ہو کے بھی آگے عدد نہیں رکھتا
یہ عمر بھر کی ریاضت مرا مقدر ہے
تراشتا ہوں جسے خال و خد نہیں رکھتا
خوشا نصیب مجھے عشق ہونے والا ہے
اجل ٹھہر کہ ذرا زندگی نہ کر لوں میں 
میں زندگی سے بہت روٹھنے لگا ہوں تراب
خدا بچائے کہیں خودکشی نہ کر لوں میں
یوں محبت سے نہ ہم خانہ بدوشوں کو بلا
اتنے سادہ ہیں کہ گھر بار اٹھا لائیں گے
اب کے ساون بھی منایا ہےمحرم کی طرح
چشم ِ گریاں بھی رہی ہجر کی بارش میں شریک
زندگی تجھ سے تو برسوں کی شناسائی تھی
چند لمحوں میں تو انجان بھی ہوسکتی ہے
غم دائمی ہے اور یہ خوشیاں ہیں عارضی
سو قہقہوں سے بڑھ کے اک آنسو عزیز ہے
مجنوں کو دشت سے کوئی نسبت نہیں تراب
لیلی کا اس کو اصل میں پہلو عزیز ہے
شدت ِ غم سے کٹ گیا ہوں میں
دو گلابوں میں بٹ گیا ہوں میں
آئنے میں بھی میرا عکس نہیں
جانے کس سے لپٹ گیا ہوں میں
واماندگی سے خوش ہیں اذیت پسند لوگ
زخموں کو چھیلتے ہیں مگر چھل نہیں رہے
اپنے ہونٹوں کو سی رہا ہوں میں
مر رہا ہوں کہ جی رہا ہوں میں
موت اب ناگزیر ٹھہری ہے
زھر جیون کا پی چکا ہوں میں
ہونٹوں سے چن لئے تھے سبھی اشک ہائے حسن
دل کے معاملے میں قضا کچھ نہیں کیا
گاہے دانتوں سے بھی کھلتی نہیں ہاتھوں گی گرہ
گاہےدشوار بھی ہوجاتےہیں آسان سے عشق
ہم ایسے بچھڑے ہیں جیسے غزل کے دو مصرعے
کبھی تو ملئے کہ باہم سخن کیا جائے
تراب تشنہ سماعت نے ایڑیاں رگڑیں
کویر ِ صوت میں زمزم سخن کیا جائے
مقدار میں جو دیکھئے تو کم نہیں ملے
لیکن بقدر ِ ظرف ہمیں غم نہیں ملے
افسوس مانگ بیٹھا دعا میں سکون کی
حد ہو گئی ہےآج تو اپنے جنون کی
دلدل تھی زندگی کی سو دھنستا چلا گیا
اور اپنی بے بسی پہ میں ھنستا چلا گیا
میں خود لپٹ گیا تھا جسے دوست جان کر
وہ سانپ کی طرح مجھے ڈستا چلا گیا
زمین ِ شعر مرے پاؤں چومتی ہےتراب
گزر کروں جو کبھی حسن ِ اتفاق سے میں
قدم قدم پہ مجھے سانپ مل رھے ھیں تراب
کہاں کہاں ہےحد ِ آستیں خدا جانے
رشتوں کی طرح ھم نے نبھایا عطا تراب
ھر قافیہ ردیف کم و بیش ، بیش و کم
بعض تمناؤں کو مبہم رہنےدو
کیا سب کی تفسیر ضروری ہوتی ہے
تجھے تو کھا گئی تعریف اھل ِ دنیا کی
مجھے تو شہر کی تنقید نے سنوار دیا
آنکھ سر چشمہ ء غم سے نہیں سیراب ہوئی
لاکھ روتے بھی تو یوں خشک نہ ہوتے سوتے
کم ظرفیوں نے ظرف کو مظروف کر دیا
جس درد میں گھرا ہوں وہ سینے کے بیچ تھا
اس عمر ِ نامراد کو ھرجانہ چاہئیے
اب زندگی کے واسطے مرجانا چاہیئے
کشکول دے گیا تجھے تحفے میں اک فقیر
اے شاہ ِ سلطنت تجھے مر جانا چاہیئے
زندگی موت کی صورت کب تھی
جسم بھی لاش کہاں تھا پہلے ؟
اس خوبصورت شاعر کی مزید کامیابیوں کے لئے بے شمار دعائیں
تحریر : ناز بٹ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں