ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

جمعرات، 6 فروری، 2014

مجید امجد کو سمجھنے کے لیے،مظہرفریدی


      اردوزبان وادب میں تین شعراءایسے ہیں ,جواپنی مثال آپ ہیں،میرتقی میرؔ، میرزااسداللہ خاں غالبؔ اور علامہ محمد
اقبالؒ۔ اب اس میں ایک اور نام مجیدامجدکے کا اضافہ ہوچکا ہے۔میرتقی میرخدائے سخن کہلائے، غالب کواپنے دورمیں وہ پذیرا ئی نہیں ملی جس کےوہ حق دارتھے۔محمدحسین آزادحق شاگردی ( ذوق) ادا کرنے کی پاداش میں خود نامعتبر ٹھہرا (کیوں کہ عظیم تخلیق کارکے فن کے خلاف لکھنااپنی ذات اور شخصیت کو داؤ پرلگانے کے مترادف ہوتاہے)۔
علامہ اقبالؒ خوش نصیب ہیں کہ انہیں زندگی میں اعتباراورمقام ملا۔ مجیدامجدکے ساتھ غالب والامعاملہ درپیش

رہاہے۔ مجیدامجدکوبھی زندگی میں وہ مقام نہیں مل سکا۔جس کے وہ حق دار تھے ۔ اگرچہ حالات وواقعات کی نوعیت قطعاً مختلف ہے۔ مجیدامجدبے نشاں ، پابہ گل،نہ رفعتِ مقام،  نہ شہرتِ دوام، لیکن لوح دل!لوح دل! کہنے والا گوشہ نشیں شاعرہے۔


 جدیدشاعری میں تین شاعروں کے نام چھائے رہے۔فیض،راشد اورمیراجی۔ لیکن اب ایک نام اوربھی ان کے ساتھ لیاجانے لگاہے،وہ مجیدامجدکا نام ہے۔ اگرچہ ادب سے وابستگی اور پسندکا معاملہ ذاتی نوعیت کا ہوتاہے۔لیکن یہ پسندیدگی ذاتی ہونے کے علاوہ جدید ذرائع ابلاغ اور تعلقات کی مرہونِ منت بھی ہوتی ہے۔اگرچہ تادیربرقرارنہیں رہتی۔
   
   
 اس طرح وہ لوگ جومعا شرے میں کسی اہمیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں انہی کی آواز گشتِ بازکی صورت کانوں میں پڑتی رہتی ہے۔یوں فکرپرلاشعوری طورپراثرات مرتب ہوتے رہتے ہیں۔بعض اوقات یہ صورتِ حال بدل بھی جاتی 

ہے۔یہ عموماً اس وقت ہوتاہے جب کوئی ادبی تحریک جنم لیتی ہے،یاادبی رحجان میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔
                ادب کا عام طالب علم جدیدادب میں پہلے پہل فیض ،راشداورمیراجی کے ناموں سے واقفیت حاصل کرتاہے۔فیض احمدفیض اور ترقی پسندتحریک کاچرچا عام ہونے کی وجہ سے،فیض کی طرف متوجہ ہوتاہے۔
لیکن ادب کاسچاقاری کسی ایک مقام پرنہیں رکتا۔اپنے مزاج کی مناسبت سے شاعری کا مطالعہ کرتا ہے۔راقم بھی ایک عام طالب علم ہے،نظم جدیدکاڈنکا بج رہا تھا۔نظم جدیدکی طرف متوجہ  ہوناپڑا ۔ راشداورمیراجی سے واسطہ پڑا۔ راشدکی "حسن کوزہ گر " اور"سباویراں"پڑھیں۔ میراجی کی "سمندرکا بلاوا" نے متأثرکیا۔فیض کی نیم رومانی اورنیم سیاسی نظموں نے بھی مزادیا۔ لیکن ادب کاسنجیدہ قاری زیادہ دیررومانی سراب میں گرفتار نہیں رہ سکتا۔ایساہی ہوا،  موسم بدلا اوررت گدرائی یوں اہل جنوں  کے    بے باک ہونے کا وقت آیا۔ایک اضطراب   نے جنم لیا۔ جس شاعرکے کلام تک رسائی ہوسکی اسے پڑھا۔ ایک وقت ایساآیا،جی شاعری سے اچاٹ ہوگیا۔
                افسانہ ،ناول اورانشائیہ کامطالعہ کیا،سفر نامے پڑھ ڈالے ،تنقیداس دوران میں مطالعے کا حصہ رہی۔اقبال کا مطالعہ کئی بارسوچ سراب میں رہنمائی کرتارہا۔آخردل نے آواز دی ،مجیدامجد کا مطالعہ کیا جائے۔یوں مجیدامجدکامطا لعہ شروع ہوا۔فیض کی"نسخہ ہائے وفا"کئی بار مطالعے سے گزر چکی تھی۔"کلیات ن م راشد"کامطالعہ کیا۔"کلیات میراجی " خریدی۔معاملہ پیچیدہ ہوتاگیا۔اقبال کی کلیات (اردو)کامطالعہ پھرکیا۔یوں دل نے کہا جدیدشعراءمیں مجیدامجدنہ صرف اہم ترین شاعر ہے ،بلکہ اس گروہ کاسرخیل بھی ہے۔
                مجیدامجدکی ابتدائی نظمیں پابندہیں۔مجیدامجدکا مطالعہ بہت وسیع اورعمیق تھا ۔ کیٹس اور شیلے کا مداح سیون برن سے متأثر، مجیدامجدکی شاعری میں اگرکسی اردو شاعر کا اثرہے،تووہ اقبال ہیں۔مجیدامجدتمام عمرکنجِ خلوت میں زیست کے کڑے لمحات کومصحفِ جان پربرداشت کرتا رہا ۔ اورجب یہ طاہرخلوتِ اوراق سے اڑگیاتوگنبدِتنہائی سے وہ گونج ابھری جوگنبدِنیلوفری میں پھیل گئی۔مجیدامجدتواس دعاکے ساتھ رخصت ہوا۔
اﷲ ! مجھ کود ید ۂ  بینند ہ کرعطا               
مولا !توہی دوائے دل ناصبوردے
                اب بازگشت اورگشتِ باز کاعمل ہورہا ہے۔شبِ رفتہ کامسافرتوجاچکا۔لیکن ان گنت سورج تک کے حوالے اورنشاں دنیائے ادب کامعتبرحوالہ ہیں۔ڈاکٹرخوا جہ زکریاّنے کلیات مرتب کرکے ادب کے طالب علموں پرفرض کردیاہے،کہ اس شاعرِبے نشاں ،پابہ گل،کوگلاب کے پھولوں کے نذرانے بھیجیں۔کیوں کہ مجیدامجددنیائے ادب سے گیانہیں، لوٹ آیاہے۔زندہ تھا،توکنجِ خلوت میں تھا،وصال کے بعدمسندِجلوت پرتخت نشیں ہے۔
                                پلٹ پڑاہوں شعاعوں کے چیتھڑے اوڑھے
                                نشیبِ  ز ینۂ ایام  پرعصا ر کھتا
                مجیدامجدنے اپنی شاعری میں کوئی دعویٰ نہیں کیا۔البتہ اس کی شاعری میں ایک زندہ غم ہے۔شایدیہ زندہ غم وہی ہے،جوعلامہ اقبال کے الفاظ میں زندہ تمناتھا۔مجیدامجدکی شاعری میں غالب کی طرح ماتم یک شہرِآرزو،تمثال دارآئینے کی طرح ہے۔جس کے ٹوٹنے کا غم نہ صرف شدید  ہے، بلکہ داخلی اورخارجی سطحوں پربے شمارتبدیلیوں کا مظہربھی ہے۔
                مجیدامجدکی ساری زندگی حالتِ جہادمیں گزری ہے۔وہ داخلی اورخارجی دونوں سطحوں پرمردانہ وارجنگ لڑتارہا ۔وصال کے بعدفکرِشعرکوبالیدگی اورروحِ شاعری کوتازگی دے کربچوں کی طرح نازِصداقت کئے بغیر,روش روش پرگلاب کے پھول لٹاتابڑھ رہا ہے۔ نظم کوجدیدمعنوں میں نظم کا معتبرحوالہ مجیدامجدکے نام سے ملتاہے۔فیض، راشداورمیراجی کے ہوتے ہوئے بھی ، ابلاغ کی سہولتوں کی کمی اورکنجِ تنہائی وخاموشی کے باوجود،دنیائے ادب میں اپنا نام زندہ رکھا۔ اقبال کے بعدآنے والے شعراءکوفکرِاقبال سے بچناممکن نہیں تھا۔اوراخترشیرانی کی رومانویت بھی دامنِ دل کوکھینچتی تھی ۔
فیض اورراشدنے ان شعراءسے اثرقبول کیا۔میراجی نے توہندی دیومالا میں دنیا بسالی تھی ۔لیکن مجیدامجدکی شاعری میں ہمیں ان کے ہم عصرشعراءفیض،راشد،میراجی یا  اخترشیرانی  ،وغیرہ کے اثرات نہیں ملتے البتہ چندنظموں میں علامہ اقبال کی منظرنگاری  کا اثرخصوصاً قابل ذکرہے۔
حالاں کہ اقبال کے فوراًبعدجس مثلث نے شاعری پرحکمرانی کی وہ فیض، راشد اور میراجی کی مثلث تھی۔شایداسی حوالے سے ساقی فارو قی نے احمدندیم قاسمی سے سوال کیاکہ کیا آپ کی شاعری فیض،راشداورمیراجی کی مثلث کوتوڑسکی ہے۔قاسمی کا جواب اپنی جگہ لیکن بقول ساقی فاروقی, احمدندیم قاسمی کی شاعری یہ مثلث توڑنے میں ناکام رہی ہے۔اوراب ایسا امکان بھی نہیں ۔فیض احمدفیض نے تغزل کا سہارالیااورتعلقات عامہ کے تمام ہتھکنڈے استعمال کئے ۔ ثنااﷲڈارنے میراجی کابہروپ بھرا،اوردھرتی پوجاکی مثال بن کرہندودیومالا   (Mith)کے سہارے سے منفردبنے۔
                 ان تینوں شعراءمیں جنس ایک اہم حوالہ ہے ۔بقول سلیم احمد"جدیدنظم راشداور میراجی کی مرہون منت رہے گی"۔جب کہ تقدیم کا مسئلہ کئی دوسرے اہم نام بھی سامنے لا چکا ہے۔ البتہ میراجی اورراشدآزادنظم کونام اوراعتباردلانے میں اپنے پیش روﺅں سے بڑھے ہوئے ہیں۔
                عدم آبادکا ماحول کچھ اس طرح دھیان میں آتاہے۔جونہی اس ادبی مثلث پر، مجیدامجد کا نام طلوع ہوتاہے۔توچندلمحے کوخاموشی طاری ہوجاتی ہے۔یہ گڈڑی کالال مسندادب کی طرف بڑھتاہے۔فیض پیچھے کوہٹتے ہیں۔راشداستقبال کرتے ہیں۔میراجی خندہ زن،دزدیدہ نظروں سے راشدکی طرف دیکھتے ہیں۔یوں ,اجنبی،     بے نشان ،پابہ گل ، مسندادب پرجلوہ افروز ہوتاہے۔
                عظمت میرٹھی سے لے کرآج تک آزادنظم(نظم جدید)،نثری نظم وغیرہ میں جتنے نام ہیں۔وہ اپنی جگہ اہم ہیں۔لیکن راشدکے بعداہم ترین اورجدیدترین شاعرانہ اضافوں ،فنی خوبیوں،گہرائی اورگیرائی میں بلندترمجیدامجدہی ہیں۔چونکہ راشداورفیض کا فسوں ابھی تک موجودہے۔اوریارلوگ وہی بے سری ڈفلی بجانے کاکام کررہے ہیں۔
اس لئے مجیدامجدکوعام قاری تک پہنچنے میں دشواری کاسامناہے۔حالاں کہ مجیدامجدنے فنی اورفکری سطح پرمقداراورمعیار کے حوالے سے ان دونوں شعراءسے زیادہ نظمیں کہہ رکھی ہیں۔اس لئے ادب کے پارکھ پریشاں ہیں۔اورکوئی ایک ادبی معیارمقررکرکے پرکھنا،ان کے بس میں نہیں رہا ۔خواجہ زکریاّنے اس کا حوالہ دیاہے۔
                مجیدامجدکی پہلی نظم ۱۹۳۲ءمیں شائع ہوئی۔اوراسی دورمیں فیض ،راشداور میراجی بھی عام لوگوں تک پہنچے۔مجیدامجدکی اک اورخوبی جوان کے ہم عصرشعراءسے بڑھی ہوئی ہے۔ وہ فنی اورفکری پختگی ہے،ان کا کلام نہ کچے پن کا شکارہوا،اورنہ ہی عامیانہ طرزاسلوب سے دامن آلودہ ہوا۔اس جسمانی ،لمسیاتی رومانی فضا میں ان کی پہلی نظم ہی ایک الگ ذائقہ رکھتی ہے۔
                کلیات کاآغازموجِ تبسم سے ہوتاہے۔دنیائے آب وگل کی ابتداءہوتی ہے۔ ستارے چمکنانہیں جانتے تھے،غنچے ناواقف تبسم تھے ۔چمن،عنادل کے ترنم سے ناآشناتھا۔ نہ شمع،نہ پروانے،بربط کے تارنغمے سے شناسا بھی نہ تھے۔نہ رنج،نہ کلفتِ دل،نہ سازِالفت ، اک خاموشی تھی،فغانِ بزمِ ہستی پرحسن کی تجلی ٹوٹی اوردنیا آبادہوئی۔فتنے جاگے ،ذرے سیماب بنے ،گلوں کے قہقہوں کاغل ہوا۔بلبل کی نوااٹھی،برشگالی کالی راتوں میں برق چمکی اور پھرمعلوم ہواکہ:
                                یہ موج بحرِامکاں جلوائے موجِ تبسم ہے
                                                چمک کرجوترے لب پرفروغِ افزائے عالم ہے
                                تبسم جس کی رنگینی ترے ہونٹوں پہ رقصاں ہے
                                                تبسم آہ جس کارقص مضرابِ رگِ جاں ہے
یعنی دل میں لطف کی پرکیف لہریں اٹھتی ہیں۔چہرے پرجذب ومستی ظاہرہوتی ہے۔ تواک موج اچھل کرتبسم بن جاتی ہے۔یوں حقیقی مسرت کا سرچشمہ تبسم اورحسن کوچار چاند لگانے والا احساس نظم کے پیکرمیں ڈھلا۔لیکن کہیں ڈھیلا پن یاعامیانہ طرزنہیں اپنایا۔ ہرمصرعے پرشاعر کی گرفت مضبوط ہے۔ہرمصرع خیال کوآگے بڑھا تاہے اورآخراس گھنڈی کوکھولتاہے۔جس کا نام  موجِ تبسم ہے۔اس کے بعد مجیدامجد،حکیم الامت علامہ  محمداقبالؒ کوخراج عقیدت پیش کرتاہے۔
                                عریاں تری نگاہ میں اسرارِکن فکاں
                                                مضمرترے ضمیرمیں تقدیرِکائنات
                                دنیا کاایک شاعرِاعظم کہیں تجھے
                                                اسلام کی کھچارکاضیغم کہیں تجھے
 اچانک ہوائی جہازکودیکھ کرایک ہوک سی دل میں اٹھتی ہے۔اک طرف ارتقاء کی یہ صورت کہ ترقی یافتہ ممالک کے لوگ ہواوُں میں اڑتے ہیں۔دوسری طرف ہم لوگ جن کی مضمحل ہستی حیاتِ جاوداں کے رازسے محروم رہتی ہے۔انسان کب تک یوں درندوں کی سی زندگی بسرکرے گا۔اوراس رجائیت آمیزپیغام کے ساتھ فقط سعیٔ مسلسل سے،فقط ذوقِ تجسس سے،خوش گوار نظاروں میں کھوجاناچاہتاہے۔کہیں لا شعورسے یہ آہ نکلتی ہے۔آہ یہ خوش گوار نظارے !یوں پہاڑوں میں ساملی ،درختوں میں چیل اورباغوں سے گذرتے ہوئے تنگ جھونپڑے جوزندگی کی علامت ہیں،نظروں سے گذرتے ہیں اورشاعران نظاروں کاحصہ بن کرسرمدی کیف میں اپنی ہستی کوڈبوناچاہتاہے۔اورمحبوبِ خداسے عرض گزار ہوتاہے۔اے روح روانِ معرفت تجھے اپنی شانِ خسروی کا واسطہ ،"مررہا ہوں زندگی کاجام دے" کیونکہ زندگی اورروح کی تابندگی توہی ہے۔
                                میرے دل کومہبطِ انوارکر                   
مجھ کوبھی بینندۂ اسرارکر
یہاں شاعرقوم کی خستہ حالی دیکھ کرقوم کی بیداری کی دعاکرتاہے۔دل سکینۂ قلب کی منزل حاصل کرتاہے۔یوں آبادی کاپہلانشان گاﺅں ملتاہے۔آپ نے دیکھادنیاکی ابتداءکا ذکر کرنے اورحکیم الامت کواپناحکیم ٹھہرانے کے بعدترقی کاایک حوالہ دے کرخوش گوار نظاروں کے ذکرکے بعدمحبوبِ خداسے درخواست گزارہوتاہے۔یہ بالکل اسی طرح ہے، جس طرح بچہ دنیا میں آنے کے بعدتبسم سے آشناہو،اپنے کس ہمدردکا سہارالے کرچلے ، نظاروں کودیکھے اوراس حقیقی ہمدردکے توسط سے رحمتِ عالم تک رسائی حاصل کرے۔ زندگی وآبادی کی نویدکے ساتھ گاؤں تک جاپہنچے۔ پہلی اچٹتی ہوئی نظرمیں گھاس پھوس کی تنگ وتاریک جھونپڑیوں پرپڑتی ہے،جہاں تمدن نام کی کوئی چیزنہیں سامنے آتی ہیں، مانوسیت بڑھتی ہے۔جھونپڑوں کے اس پارکھیت جھاڑیوں کے جھنڈ،ریت کے ٹیلے ،سادگی ،سکوں،درخت ،درختوں کے سائے بھینسیں،بھیڑ بکریوں کے ریوڑ، جو جبلت سے مجبور ہوکرہرچیزکوسونگھتے ہیں ،سامنے آتے ہیں۔اوریہ اندازدیکھئے ۔
                یہ آندھیوں کے خوف سے سہمی ہوئی ہوا
                                جنگل کی جھاڑیوں سے سنکتی ہوئی ہوا
 اس کے "کنواں"زندگی کا مظہراورجہاں کی زندگی کامحوربن جاتاہے۔
                                برفاب کے دفینے اگلتاہواکنواں
                                یہ گھنگھروؤں کی تال پہ چلتاہواکنواں
بیل یابیلوں کاجوڑا،پاؤں میں گھنگھرو،کنواں اورکنویں کے گرداپنے ہی گھنگھروؤں کی مست کردینے والی آوازاوراس تال کی مستی سے مسلسل چلتے بیل ،ٹھنڈے پانی کے خزانوں کولٹاتا ہواکنواں،کھیت اوراردگردکی ہرشے اس سے زندگی پاتی اورشاداب ہوتی ہے۔"دوشیزۂ  بہارکی اٹھتی جوانیاں"جب یہ سب کچھ مل جاتاہے تو،"ہاں ہاں یہ حسن شاہدفطرت کی جلوہ گہہ کہہ کرحسنِ فطرت کے ظاہر اورساری ہونے کوایک نیارنگ دیتاہے۔اورآخری شعربھی دیکھتے چلیں۔
                                دنیامیں جس کوکہتے ہیں گاؤں یہی توہے
                                طوبیٰ کی شاخِ سبزکی چھاؤں یہی توہے
                اگرایسی بات ورڈس ورتھ(Words Worth)کہے تودنیاکاعظیم شاعربن جائے اور اگرشاعرِبے نشاں ،پابہ گل،مجیدامجدکہے توجواباً ایک مجرم خاموشی کے سواکچھ نہ ہو(ورڈس ورتھ پرایک اعترض یہ بھی ہے کہ اسے دنیامیں صرف مناظرِفطرت ہی نظر آئے اورحسن صرف مناظر ہی میں نظرآیا۔انساں جواس دنیا کامحورومرکزہے کیاوہ حسیں نہیں؟کیااس کے غم اور خوشیاں ناقابلِ اعتناءہیں؟یہ اعتراض کولرج اورورڈس ورتھ کی بہن ڈورتھی نے کیے تھے ) ۔  لیکن مجیدامجدپریہ الزام نہیں لگایاجاسکتا۔مجیدامجدحالی کومحبت کا نذرانہ پیش کرتاہے۔
                                اگراب بھی نھیں سمجھے تولومیں برملا کہہ دوں                         
اجی اک آنے والے دورکی تمہیدہے حالی
                بات موجِ تبسم سے شروع ہوئی تھی ۔مختلف رنگ اورانگ دیکھنے کے بعد،حسن تک پہنچی غالباً ’حسن‘ پہلی نظم ہے جوحقیقتِ حسن (علامہ اقبالؒ)کے بعدسب سے زیادہ متأثرکرتی ہے۔ حسن کا نازوانداز،حسن کا خرام وبانکپن اورجذبِ والہانہ اس نظم میں دیکھنے سے تعلق رکھتاہے (نجانے نصاب مرتب کرنے والے لوگوں کوایسی نظمیں کیوں نظرنہیں آتیں؟)۔حسن کی حقیقت پہلے ہی مصرعے میں واضح ہوجاتی ہے۔
اگرچہ علامہ اقبال نے جرمن ادب سے متأثرہوکرحقیقتِ حسن کہی تھی ۔ لیکن علامہ اقبالؒ کی نظم واضح طورپرجرمن شاعرگوئٹے کے خیال کومہمیزلگاتی ہے۔اورعلامہ اقبالؒ نے اسے اسلامی مشرقی رنگ میں رنگ دیاہے۔
اسی طرح مجیدامجدکی نظم اقبالؒ کے فکرکا تسلسل ہے۔اورواضح طورپراگلے پڑاؤ کی جانب اشارہ کرتی ہے۔اقبال ؒکی نظم مکالماتی ہے۔اورحسن کا خداسے استفسار اور جواب کے بعد حسن کے رخ پرحزن کے اثرات کا کائناتی تناظرمیں فناءاور بقاءکامسئلہ اپنی جگہ،لیکن مجیدامجدکی نظم’ حسن‘میں ایک عجیب حسن اورسرمستی ہے اورحسن کونازہے کہ کائنات کی ہرچیزمیں جلوہ گرہے۔اوررازِفناءوبقاءسے واقف ہے۔
                                یہ کائنات میرااک تبسمِ رنگیں
                یہاں حسن 'الحسن 'بن جاتاہے اورستاروں سے آگے جہاں اوربھی ہیں کاپیغام بھی دیتا ہے۔کہ اک تبسم رنگیں ،اگریہ کائنات ہے،توحسنِ مجسم کیاہوگا؟یہ جوفردوسِ بریں اورفردوس کی بہاروں کی دھوم ہے کیاہے؟
                                بہارِخلدمری اک نگاہِ فردوسیں
سبحان اللہ۔وجداں کی وہ سطح جہاں اوراقِ ادراک پرصحیفے اترتے ہیں۔زمین وزماں کی جلوہ خیزیاں ،فضائے جہاں کانورریزہونا،مرے دم سے ہے۔میں ہوں تویہ ہیں۔اس اطمینان     کے ساتھ یہ تیقن"وتعزمن تشاء"ایک قدم اورآگے بڑھیے ۔
                                گھٹا؟نہیں میرے گیسوؤں کاپرتوہے!
                                ہوا؟نہیں  میرے جذبات کی تگ ودوہے!
گھٹا،نہیں نہیں !میں نے  گیسوؤں کوکھولا ہواہے۔ہواؤں کوان سے کھیلنے کی اجازت دی ہے۔گیسواڑرہے ہیں۔گھٹاگھنگھورہورہی ہے۔اور پھر ہوا کیاہے؟ہوا،ہوااورکچھ نہیں ہے، میرے جذبات کے اتارچڑھاؤکانام ہے۔جذبات کے ساتھ سانس  کی رفتارمیں تبدیلی آتی ہے۔کبھی آہِ سرد،کبھی گرمئ جذبات ،کبھی سانس کاتیزہونا، کبھی اضطرب ،کبھی حالتِ نیند، 'ہوا'اورکچھ نہیں ہے؟آپ نے دیکھاگھٹا،گیسوﺅں کااستعارہ کیسی بنی اورگیسوبھی کہاں؟ پرتوگیسو!گھٹامجبورہے،ہوامجبورہے۔یہ تیور،حسن کے ہیں۔حسن کی ایک جھلک دیکھئے۔
                                جمالِ گل ؟نہیں بے وجہ ہنس پڑاہوں میں
                                نسیمِ صبح ؟نہیں سانس لے رہا ہوں میں
گل کاجمال مصحفِ گل،پھول کی پتیاں؟نہیں ہیں!یہ تومیری ہنسی تھی ۔چوں کہ بے وجہ تھی ، یارلوگوں نے اسے گل کاجمال سمجھا۔اورنسیمِ صبح،بذات خودکیاہے؟میراسانس لینا !جس کا سانس ، نسیمِ صبح ہو،وہ خودکیا ہوگا؟حسن کے تیوردیکھتے جائےے!فکرکوپھرمہمیزلگتی ہے۔
                                یہ عشق توہے اک احساسِ بےخودانہ میرا
پہلی بات تویہ ہے کہ عشق کے لئے احساسِ بیخودانہ جیسی ترکیب تراشنے کے بعد، چیزے دگر بنا دیا گیاہے۔حسن کی بے خودی کا احساس عشق ہے۔عشق کے مختلف نام اورتفسیریریں مختلف شعراء نے کی ہیں۔لیکن یہاں خودحسن ہے۔جواس بے نیازی سے کہہ رہا ہے کہ عشق کچھ نہیں ہے۔ مرااحساسِ بے خودانہ ہے۔اورزندگی کی نئی تفسیربھی سنیے،’زندگی توہے،اک جذبِ والہانہ مرا، علامہ اقبال نے زندگی کوایک الگ زاویٔ نظرسے دیکھا۔'برترازاندیشۂ سودوزیاں ہے زندگی'اورپھر 'سرآدم ہے ضمیرِکن فکاں ہے زندگی'کی دلیل سے واضح کرتے ہیں۔
لیکن مجیدامجدنے تخلیقِ آدم اورزندگی کی ابتداءکے متعلق صوفیانہ نظریے کی واضح اندازمیں تجدید کردی ہے۔حسن کہتاہے،زندگی تومرااک جذبِ والہانہ ہے۔یہاں جذبِ والہانہ کی ترکیب بھی بے نظیرہے۔جذب کے معنی ہیں،کھنچ جانااوروالہانہ وارفتگی ،دل ودماغ کے بانکپن کا اظہار ہے۔ جب حسن پوری توجہ اوربانکپن سے متوجہ ہوا،توزندگی کی علامت ٹھہرا۔یہاں مجیدامجدکافکر القاءکی حدوں کوچھوتاہوامحسوس ہوتاہے۔
                                ظہورِکوں ومکاں کاسبب !فقط میں ہوں
                                نظامِ سلسلۂ روزوشب !فقط میں ہوں
دنیامیں ہزاروں رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔صحرا،دریا،پہاڑ،وادیاں، جھیلیں ،میرے عکس ریزے ہیں۔کون ومکاں کہاں ہوتے؟اگرمیں نہ ہوتا؟نظامِ دنیاکب ہوتا ؟اگرمیں نہ ہوتا؟ میرے ہونے سے یہ ہیں۔عربی مقولہ ہے۔" اللہ جمیل و یحب الجمال"
. According to Browining Beauty is the creative joy of God
                آپ نے ملاحظہ فرمایا،اس مختصرنظم میں پہلے مصرعے سے نظم کس طرح اٹھتی ہے ۔ اور آخری مصرعے تک تکمیل کی کن حدوں کوچھولیتی ہے۔چھ شعروں میں حسن کاایسا بھرپور  تعارف مجیدامجدکے فکروفن کی بہترین صلاحیتوں کا اظہارہے۔
یہی مجیدامجدکافن ہے۔یہ نظم حسیاتی ولمسیاتی دونوں پہلوؤں سے اپنے پیش روؤں سے بڑھی ہوئی ہے۔اس نظم میں خیال فینٹیسی Fantancy )  (کی حدوں کوچھولیتاہے۔یوں ان دیکھی دنیاؤں کا مسافر،نواردکے روپ میں ظاہر ہوتاہے۔اجنبی شہرِمحبت میں ہے،لیکن اس دیس کے اطوارسے ناواقف ہے۔اس لئے کہتا ہے۔ "اک مسافرہوں ترے دیس میں آنکلا ہوں"کہتے ہوئے گذرجاتاہے۔اوراپناگھرجومامن ٹھہرا،یعنی جھنگ پہنچ جاتاہے۔لیکن وہاں بھی اسے تسکین نہیں ملتی کیوںکہ'یہاں پرقلب ونظرکو غذانہیں ملتی' ۔اوریہاں کے تحفے حسد ، عداوت اورافلاس ہیں ۔ اس لئے شاعرندیمِ جھنگ سے تنگ آجاتاہے۔خارجی بیزاری اورداخلی کرب مل کربے کل کردیتے ہیں۔اور'۔۔۔۔ یہی دنیا ؟' سے واسطہ پڑتاہے۔
                جس جگہ اٹھتی ہے یوں مزدورکے دل سے فغاں
                                                فیکڑی کی چمنیوں سے جس طرح نکلے دھواں
                جس جگہ سرماکی ٹھنڈی شب میں ٹھٹھرے ہونٹ سے
                                                چومتی ہے روکے بیوہ ،گال سوتے لال کے
فغاں کوفیکٹری سے نکلنے والے دھوئیں سے تشبہیہ دینابھی شاعرکی جدیدلفظیات پر دسترس کوظاہرکرتاہے۔محبت کی گرمی مسلم،لیکن جب بیوہ ماں تمام دن فیکٹری میں کام کرنے کے بعدلوٹتی ہے اوراپنے لال کوآغوش محبت میں لٹاکرٹھٹھرتے ہونٹوں سے چومتی ہے تو آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی ہے۔محبت کی گرمی نے بھی ٹھٹھرے ہونٹوں پر اثرنہیں کیا۔ ندیم جھنگ سے تنگ آ کرجب ایسی دنیا سے واسطہ پڑاتودھیان میں آیا،جوانی میں تولوگ خوش ہونے کے لاکھوں بہانے ڈھونڈلیتے ہیں۔میری جوانی کی کہانی کیسی ہے؟
                                میری آنکھوں میں آنسوجھوم آئے
                                                نہ چھیڑاے دل جوانی کی کہانی
ادھراک شرط عائدہے۔جوانی اورشرط ،عشق اورمشک کہیں چھپائے چھپتاہے؟
لیکن مجبوری ہے ۔  یہی بنیادی شرط ہے،شاعرکہتاہے،مجھے معلوم ہے کہ تیری شرط اتنی کڑی کیوں ہے؟ کیوں کہ
                                کسی شب ایسانہ ہونالۂ بیتاب کے ساتھ
ترے ہونٹوں سے نکل جائے میرانام کہیں!
شاعرہرشرط مان لیتاہے۔اورشعلۂ جاں سوزمیں جذب ہونے کے بعدکہتاہے۔
                                اورخداپوچھے گاوہ  راز  باصرارترا
                                اس کے اصرارسے ٹکرائے گا انکارمرا
  اس انکارکے بعدعلامہ اقبال یادآتے ہے۔اقبال کاشکوہ یادآتاہے۔شاعراقبال کے حضورپھرمحبت کا نذرانہ پیش کرتاہے۔
                                ثبت لوحِ جہاں پہ نام اس کا                         
زندۂ جاوداں کلا م اس کا
                لیکن اقبال بھی اس دنیا میں نہ رہا۔ہرچیزفانی ہے،تولمحات فانی کاذکرضروری ہوجاتا ہے۔لیکن کچھ لمحات ایسے ہوتے ہیں جوبھلائے نہیں بھولتے ہیں۔
مگروہ وقت جب تیرہ خلا میں                         ستاروں کی نظرگم ہورہی تھی
اوراس دم میری آغوشِ گنہ میں                   قیامت کی جوانی سورہی تھی
ایسے میں تغیرِعمل کا شادیانہ بجتاہے۔شومئی تقدیرکا گلہ یاتدبیرکی ناکامی کاماتم نہیں بلک "نفیرعمل "میں"نوجوانان وطن !آﺅکوئی کام کریں" کاسندیسہ ہے۔لیکن سرِبام مرکزِحسن کی طرف نگاہ بے ارادہ بھی اٹھ ہی جاتی ہے۔کیوں کہ وہاں اک پیامِ خموش منتظرہے۔ جو دامنِ دل کوتھامنے کی ناکام کوشش کرتاہے۔دوسری طرف اک التماس ہے۔
                                ع           جوانی کے اک خواب سے کھیلنے دے
لیکن زنداں کادرکھلتا ہے۔قیدی سے ملاقات ہوتی ہے۔ شاعرقیدی سے ہم کلام ہے۔
کہ زنجیرکی کڑیاںزندگی کی الجھنوں کے سلسلے کی طرح ہیں اور:
                ع           بیڑیاں ،قیدی!ترے پاؤں میں ہیں تاگے نہیں
قیدمیں خوابوں پرتوپابندی نہیں لگائی جاسکتی ۔اچانک ایک آواز،ایک سپنا،اسے بے چین کردیتا ہے۔کون؟کون ہوتم؟لیکن وہ توایک سپناتھا۔
                                میں اس شکل موہوم کوڈھونڈتاہوں
                                میں اس سرِمکتوم کوڈھونڈتاہوں
یوں زندگی کی تلاش شروع ہوتی ہے۔"شاعر"ے ملاقات ہوتی ہے۔یاپھرخودکلامی :
                                یہ محلوں یہ تختوں،یہ تاجوں کی دنیا
                                گناہوں میں لتھڑے رواجوں کی دنیا
                                محبت کے دشمن سماجوں کی دنیا
                بقول ڈاکٹرخواجہ محمد زکریّا،ساحرلدھیانوی کے مشہورگیت کے بعض مصرعے اس بند سے ماخوذ ہیں۔اورمیرے نزدیک پوری نظم کاخیال اسی نظم سے مستعارہے۔اس بندمیں " گناہوں میں لتھڑے رواج "   کیاخوب صورت ترکیب ہے۔رواج فردکوکس طرح بے دست وپا کردیتے ہیں۔ اورپھر:
                                میری عمربیتی چلی جا رہی ہے
                                دوگھڑیوں کی چھاﺅں ڈھلی جارہی ہے
                                ذراسی یہ بتی جلی جا رہی ہے
 زندگی کوبتی سے تشبہیہ دینا ،مجیدامجدہی کا فن ہے۔بتی کا جلنا،زندگی کا گھٹنا اور حدتِ غم یاآتشِ سوزاں جیساتلازمہ تراشاگیاہے۔بتی بجھی،زندگی ہونے سے نہ ہونے کی سرحد میں داخل ہوگئی۔بہارکی پون رت نے پہلی کلی کوکھلا دیا۔آبشاروں کی راگنیاں جاگیں ۔خوشبو نے خمارکا عالم کردیا۔اورشاعرِبے نشان پابہ گل،اپنی تہی دامانی کے باوجودیہ پہلا پھول ،
حسن محبوب کی خدمت میں بھیجتاہے۔یہ پھول کیاہے؟
                                کومل سا،مسکراتاہوا،مشک بارپھول
                                پروردگارِعشق کا یہ بے زباں رسول
                پروردگارِعشق اوربے زباںرسول کی تراکیب مجیدامجدکے فن کوایک قدم اور آگے بڑھاتی ہیں ۔عشق کاراز،اورقاصدکی خاموشی،لیکن اگرقاصدپھول ہوتوپھرگویائی شرما جائے۔ تقریرفداہو، سکوت باتیںکرے۔یہ پھول،بھولے بسرے دنوں کی یادتازہ کرنے کا اک بہانہ ہے۔کیوں کہ:
                                وہ دیکھ پوپھٹی ،کٹی رات اضطراب کی
                                اچھلی خطِ افق سے صراحی شراب کی
خطِ افق سے شراب کی صراحی کااچھلنا،زندگی کی عجب تأویل ہے۔اضطراب کی رات کا کٹنااورصبح کا اجالاہونا۔اس کی تشبہیہ اس خوب صورت اندازمیں غالباً اس سے پہلے نہیں دی گئی۔  سامنے زندگی کے ہمہمے ہیں۔نئے سفرکی ابتداہوتی ہے۔ریل کاسفرشروع ہوتاہے۔اورشاعرریل سے زندگی اورمتعلقاتِ زندگی کا نظارہ کرتاہے۔نظم کامجموعی تأثر دماغ کی بجائے دل پرہوتاہے، جو روح کے تاروں کوچھیڑدیتاہے۔
                                کنواں بن میں بربادسااک پڑاہے
                                                کسی یادِرنگیں میں ڈوباہواہے
                                کشش ہے فسوں ہے نہ جانے وہ کیاہے
                                                جوگاڑی کوکھینچے لےے جارہا ہے
لیکن یہ مناظراسے’ میراسکھ بھرادیس جھنگ آگیاہے‘،کی خوش خبری دیتے ہیں ۔ سفر کے فسوں نے نہ صرف گاڑی پرقبضہ کررکھاہے۔بلکہ شاعرکی تمام رگیں بھی کھنچی ہوئی ہیں۔ دیس، جھنگ کے آتے ہی روح پراطمینان کی پریاں اترتی ہیں۔اوروطن میں آنے کے بعد شاعران دیکھی زنجیروں میں جکڑاجاتاہے۔کیوں کہ"بھلا کران آنکھوں کااشارہ جانہیں سکتا" حالاں کہ اسے آفاق کی پہنایاں آوازدیتی ہیں اوراسے یہ احساس بھی ہے۔یہ سچ ہے’ اپنے جوہر کھورہا ہوں دیس میں رہ کروجہ وہ ملتجی آنکھوں کی حیرانی اوراشک فشانی ہے۔ شاعرکی دنیامیں انقلاب برپاہوتا ہے۔آہوں سے روح کی اگنی کی بھبھک جاتی رہتی ہے۔ تخیل کی رنگیں دنیا نے جوپردہ رخِ ہستی پرڈال رکھاتھا،اٹھنے لگتاہے۔بادِصباکے جھونکے دل کے شعلوں کوہوادیتے ہیں۔ غنچوں کاتبسم ،رونے کاسبب بن جاتاہے۔اگرچہ یہ بات ماننے کے باوجودکہ:
                                چاندکی قاش سے ماتھے کی صباحت !سچ ہے
                                پھول کی طرح حسین چہرے کی رنگت !سچ ہے
لیکن شاعرپریہ رازکھل چکاہے کہ :
                حسن اک دھوکاہے اورعشق بھی خودبھول ہے اک
                                تتلی کیوں گل پہ گرے تتلی ہی خودپھول ہے اک
یوں شاعرغزالی آنکھوں کااشارہ بھول جاتاہے۔لیکن روح اسیرِفریبِ محبت ہے۔اس لئے کہہ اٹھتاہے۔
                ع           یہیں پہ رہنے دے صیادآشیانہ میرا
                کیوں کہ اسی جگہ شاعرسوزِمحبت کے طلسم میں گرفتارہواتھا۔اس لئے اس ٹھکانے سے جانانہیں چاہتا۔اس اعتراف کے ساتھ کہ وہ ایک تنکاجس پراس ٹھکانے اورخوشی کی بنیاد ہے،اسی کے چمن سے چرایاہواہے۔لیکن درگزرکی درخواست کرتاہے۔کہ آج کے بعدمیں اپنی زبان نہ کھولوں گا۔
                                اندھیرے میں کوئی پتہ جوسرسرا  تا  ہے
                                تواب بھی راتوں کودل میراچونک جاتاہے
                                سمجھتا ہوں و ہ مراہم سرورآتاہے
                                                                ہے جس کی ایک امانت یہ آشیانہ مرا
                                                                یہ ٹوٹی ٹہنی پہ بربادسا ٹھکانہ مرا
                لیکن امیدکا ستارہ نہیں چمکتااوریہ نوا،تشنج آمیزبے بسی بن جاتی ہے،لیکن دل ہے کہ مانتانہیں۔اسے ابھی تک انتظارہے۔
                                وہ دیکھ !شا خیں ہلی ہیں ۔وہ آرہا ہوگا
                                حسین کلیاں کھلی ہیں ۔وہ آرہا ہوگا
                                رتیں رتوں سے ملی ہیں۔وہ آرہا ہوگا
                                                                یہیں ،ادھرہی،وہ سکھ سنگتی پرانامرا
                                                                یہیں پہ رہنے دے صیاد،آشیانہ مرا
کوئی نہ کوئی بہانہ،اس کے قدم روک لیتاہے۔اورشاعرپھرصیادکے سامنے بے بس ہوجاتا ہے۔لیکن کون لوٹ کے آتاہے۔یہاںتک کہ بیساکھ آجاتاہے(یہ ساون رت ہے ۔ اس رت میں پون پودوں کونیاحسن دیتی ہے۔غنچے کھلتے ہیں،کلیاں مسکراتی ہیں) ۔فصلیں کٹتی ہیں۔یہ رت دہقان کے سوئے بخت کی انگڑائیوں کی رت ہے۔بخت بیدارہوتاہے ۔ دھیمے قہقہے اورشہنائیوں کی گونج سے رستے جاگ اٹھتے ہیں کہ صبحِ جدائی آجاتی ہے۔
                ع           وہ رات سہانی بیت چکی ،آپہنچی صبحِ جدائی ہے
 وصل کے بعدفراق کا لمحہ ،کیوں کہ نظام زندگی اسی سے عبارت ہے۔
                جاتاہوں،اجازت !وہ دیکھوغرفے سے شعاعیں جھلکی ہیں
                                پگھلے ہوئے سونے کی لہریں مینائے شفق سے چھلکی ہیں
غرفے سے شعاعوں کا جھلکنا،مینائے شفق کے بعداسے پگھلے ہوئے سونے کی لہروں سے تشبہیہ دینااورنئی ترکیب بنانا۔کمال فن کی دلیل ہے۔مجیدامجدکی زبان پردسترس اورہر اچھوتے خیال کوآسانی کے ساتھ موزوںالفاظ میں بیان کرنے کا ملکہ حیرت انگیزہے۔یوں مجیدامجد تراکیب کا جہاں معنی آبادکرتاہے۔صبح جدائی کی اصل وجہ تنگ دستی ہے۔اوردنیاکی اندھیری گھاٹی میں ٹھوکریں کھانے کی مجبوری ہے۔
                شاہِ وقت کے لئے ایک عام آدمی کی کوئی حیثیت نہیں۔یہیں سے قیصریت کی ایک جھلک نظرآتی ہے۔اس نظم کے بارے میں بلال زبیری کہتے ہیں۔اس زمانے (۱۹۳۴ء)میں اخبارات کے صفحۂ اول پرقومی نظمیں شائع کی جاتی تھیں۔
                امجدمرحوم نے عروج کے صفحۂ اول کے لئے نظم لکھی اورکاتب کودے کر لاہورایک مشاعرہ میں شمولیت کے لئے چلے گئے۔مگرکاتب سے وہ نظم گم ہوگئی ۔کاتب کو احساس تھا کہ نظم کے بغیرپرچہ چھپ گیاتوجواب طلبی ہوگی۔اس نے مجیدامجدکے کاغذات میں سے ایک اورنظم جوباغیانہ قسم کی تھی نکال کرچھاپ دی۔اس کاعنوان قیصریت تھا۔عروج شائع ہواسرکاری حلقوں میں کہرام مچ گیا۔عروج کے دفترپرچھاپاپڑا۔پولیس نے ریکارڈقبضہ میں لے لیا۔امجد مرحوم کے وارنٹ جاری ہوئے۔یہ حوالہ اس نظم کوواضح کرنے کے لئے بیان کرناپڑا۔نظم کے تین بندہیں۔سپاہی شاہِ وقت کے فوج کے ساتھ روانہ ہوتاہے۔دوسرابنداس کی موت اوراس کی بیوی کی دوسری شادی پرہے۔بچہ ،سپاہی کا بے یارومددگارلخت جگر ،    بے در،  بے گھرہوجاتاہے۔
                تیسرے بندمیں وہی بچہ شاہ ِوقت کے درپربھیک مانگنے گیاہے،لیکن شاہ کی سواری آتی ہے،اوربچہ گھوڑوں کی ٹاپوں تلے رونداجاتاہے۔جب کہ مجبوررعایاکی ہرطرف سے یہ صداآتی ہے۔ بادشاہِ مہربان!زندہ رہے۔یوں یہ نظم ایک طمانچے کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس کی بنا پرمجیدامجد کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھوناپڑے۔"قیدی دوست"بھی قیدیوں کی مجبوری کی داستان ہے۔اورجب ایک قیدخانے سے دوسرے زنداں میں منتقل ہونے کی اطلاع ملتی ہے۔ اسی بہانے سے دو قیدیوں کی ملاقات کا وسیلہ بنتاہے۔یوں
                                پھرقدم رکھتے ہی ساحل پرجداہوجائیں گے
                                ازسرِ نو قیدیٔ دامِ بلاہوجائیں گے
                'آوارگان فطرت سے'ہم کلامی ہوتی ہے۔اس نظم کے تین بندہیں ،یہ نظم اپنی بناوٹ (آرٹ اورکرافٹ)  کے اعتبارسے بھی اہم ہے۔
                ع           بتابھی مجھ کوارے ہانپتے ہوئے جھونکے
مجیدامجدکے اسلوب میں ایک خاص چیز،جوخارج سے ہمدردانہ رویہ (Treatment)  پیدا کرتی ہے۔وہ مجیدامجدکا رویہ ہے۔جھونکے سے ہمدردی ہے۔اگرچہ وہ سینۂ فطرت کی آہِ آوارہ ہے۔ لیکن مامتاجیسی محبت سے جب سوال ہوتاہے۔توقاری کے دل کوبھی احساسِ محبت سے بھردیتا ہے۔اورسینئہ فطرت کی آہ ِآوارہ کی ترکیب،دل عش عش کراٹھتاہے۔ آہ،جیسے ماں کواپنے بچوں کی ہرحرکت کے بارے میں معلوم ہوتاہے۔اورفوراًبعدایک سوال کی تیری نظروں نے وہ منظر دیکھاہے؟کون سامنظر!؟دنیاکے طول وعرض کے بے شمارمناظرجھونکے کی گردِراہ بنتے رہتے ہیں ۔جب کسی کی یاداشکوں کے ہجوم کے جلومیں ایوانِ دل پرچھاتی ہے۔ اس  کے باوجودخرابِ محبت تھک کرنیندکی آغوش میں چلا جاتاہے۔سوال بظاہریہاں ختم ہوگیا ہے ؟  لیکن اصل سوال قاری کے ذہن میں پیداہوچکاہے۔کہ یہ سوال کیوں پوچھاگیا؟تووجہ تھی کہ اس نیندکے عالم میں اس خرابِ محبت پرکیاگزرتی ہے۔لا شعوراست کے دل ودماغ پرکیااثر چھوڑتاہے اورنیندمیں اس کا ردعمل کیسا ہوتاہے۔یہاں وہ محبت جورگ رگ میں سما چکی ہے۔ اس کی تصدیق کاعمل خودبخودہوجاتاہے۔
                بتابھی مجھ کوارے ہانپتے ہوئے جھونکے
                                ار ے او سینۂ فطرت کی آہِ آوارہ !
                                تری نظرنے بھی دیکھاکبھی وہ نظارہ:
                کہ لے کے اپنے جلومیں ہجوم اشکوں کے
                                کسی کی یادجب ایوانِ دل پہ چھاجائے
                                توا ک خرابِ محبت کونیندآجا ئے
یہ آوارہ جھونکا،سداکاپاجی سنی ان سنی کرکے یہ جا وہ جا۔توشاعرابدکنارسمندرکی طرف متوجہ ہوتا ہے۔اورسوال کرتاہے،تری حسیں موجیں جوشب وروز، بھیانک راگ الاپتی رہتی ہیں ۔یہ کیا اور کیوں ہیں؟کیاترے طوفان اس آگ کوبجھانے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟،جوکسی دکھ بھرے دل میں بھڑک اٹھتی ہے۔جب جداہونے والوں کی یادماہئ بے آب کردیتی ہے،تو  لا شعوری طور پرایک ہی نام نکلتاہے۔لیکن سمندراپنے آپ میں گم ،چپ رہتاہے۔توروح سے اک ہوک اٹھتی ہے۔
                                جب ایک بچھڑے ہوئے کا پیام آتاہے
                                کسی کا روح کے ہونٹوں پہ نام آتاہے
                مندرجہ بالا بندمیں "بھیانک راگ "کی ترکیب کے بعد،روح کے ہونٹ کی پیکر تراشی مجیدامجدکے فن کاحصہ ہے۔ہنوزسوال شرمندہ جواب ہے۔شاعرچاندکے حسن کی طرف متوجہ ہوتا  ہے۔چاندحسیں رتوں اورحسیں چہروں کا مرکزومحور،ویرانے ، آبادی،صحرا،سمندر،پہاڑاور میدان اوروادیوں کے آنگن میں اترکر،ان کہے اوران سنے رازوں کاامیں کچھ توہی بتا۔کیا تری کرنوں کے نیلگوں سائے کبھی ایسے شہرِخموشاں میں لہرائے ،جہاں ایک بیوہ کسی قبرپرچراغ جلا کرایسی   کرب آمیز خاموشی سے تڑپی ہوکہ سونے والا بیدارہوکربے چین ،بے کل ہوگیاہو۔ مجیدامجد کااندازد یکھے۔
                جہاں پہ ایک ابھاگن نے جب جلا کے چراغ
                                کسی قبرپہ مدھم سی روشنی کی ہو!
                                توسونے والے نے بھی جاگ کرصدادی ہو
                لیکن سامنے سکوت صحراتھا۔کرب کی حدت تھی ۔مجیدامجدنے اس نظم میں زندگی کوبیوہ کے روپ میں دیکھاہے۔۔۔۔۔۔۔
باقی آئندہ
MAZHAR FAREED FAREEDI FGS/Fauji Fertilizer Co.Machhi Goih. Sadiqabad.Distt.R.Y.Khan.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں