ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

منگل، 4 فروری، 2014

غزل ۔ مجید امجد

اور اب یہ کہتا ہوں، یہ جرم تو روا رکھتا
میں عمر اپنے لیئے بھی تو کچھ بچا رکھتا
خیال صبحوں، کرن ساحلوں کی اوٹ،سدا
میں موتیوں جڑی ہنسی کی لے جگا رکھتا
جب آسماں پہ خداؤں کے لفظ ٹکراتے
میں اپنی سوچ کی بے حرف لو جلا رکھتا
ہوا کے سایوں میں، ہجر اور ہجرتوں کے وہ خواب
میں اپنے دل میں وہ سب منزلیں سجا رکھتا
انہی سرحدوں تک ابھرتی، یہ لہر جس میں ہوں میں 
اگر میں سب یہ سمندر بھی وقت کا رکھتا
پلٹ پڑا ہوں، شعاعوں کے چیتھڑے اوڑھے
نشیبِ زینۂ ایام پر عصا رکھتا
یہ کون ہے جو مری زندگی میں آ آ کر
ہے مجھ میں کھوئے مرے جی کو ڈھونڈتا رکھتا
غموں کے سبز تبسم سے کنج مہکے ہیں 
سمے کے سم کے ثمر ہیں، میں اور کیا رکھتا
کسی خیال میں ہوں یا کسی خلا میں ہوں 
کہاں ہوں، کوئی جہاں تو مرا پتا رکھتا
جو شکوہ اب ہے یہی ابتدا میں تھا امجد
کریم تھا، مری کوشش میں انتہا رکھتا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں