ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

ہفتہ، 14 دسمبر، 2013

علی اصغر عباس کی دو غزلیں

پہلی غزل
بے مزا زیست کے چکر سے نکل ہی جائیں
بے سکونی ہے بہت،گھر سے نکل ہی جائیں
اب تو شوریدہ سری حد سے بڑھی جاتی ہے
کار_ افسوں ہی کریں،سر سے نکل ہی جائیں
زیست کی شام کنارے سے اتر جاتے ہیں
اس سے پہلے کہ کہیں لوگ،لو مر جاتے ہیں
اتنا دم خم ہی نہیں دل میں رہا دکھ سہہ لے
قہقہہ زور سے لگتا ہے تو ڈر جاتے ہیں
عیب جُوئی کا مری ان کو ضرر نہ پہنچے
جو گماں دوست کریں،ویسا ہی کر جاتے ہیں
رہگذر،ساتھ اٹھائے ہوئے چلتے جائیں
اپنا جادہ ہے میاں ،اپنی ڈگر جاتے ہیں
چیستاں ،ہم ہیں،تو کیا عُقدہ کُشائی ہوگی


سوچ منجدھار میں،کیا کیا سے بھنور جاتے ہیں
کرم گُستر نہ کوئی ہم کو نفع یاب ہُوا
شعلہءتاک پیے،مثل_ شرر جاتے ہیں
کیا تنوع ہے خیالات کی بُو قلمُونی
حوض،افسون_تحیر سے ہی بھر جاتے ہیں
آخر_ کار تو مقدور ہے پستی صاحب!
بوجھ کیوں لادے ہُوئے،کُوئے خطر جاتے ہیں
سانحہ بن کے گذر جاتے ہیں خود پہ اصغر
اس سے پہلے کہ کہیں لوگ،لو مر جاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری غزل
درد_ دل اب تو گرانبارئ_ جاں ہوتا ہے
موت سے مل کے تو اس ڈر سے نکل ہی جائیں
رات جو ہم نے گذاری ہے،بہت لمبی تھی
کیوں نہ دشوارئ_ دن بھر سے نکل ہی جائیں
اب کسی شہر_ خموشاں کی بنیں دُھول میاں
خاک کے عارضی پیکر سے نکل ہی جائیں
آج درماندہ،فروماندہ ہُوئے جاتے ہیں
باد گولہ ہیں تو منطر سے نکل ہی جائیں
آن بیٹھے تھے یہاں دو گھڑی سستانے کو
دشت کی اور کے باہر سے نکل ہی جائیں
دار_ فانی سے چلیں دار_ بقا کی جانب
خیر مفقود ہُوا،شر سے نکل ہی جائیں
بھُول کیسے نہ کریں آدم_ خاکی ہیں میاں
چُوک ہوجائے تو ،کیا گھر سے نکل ہی جائیں
عالم_ کیف میں رہنے کو ترسنا کیسا
آؤ بے نامئ_ اصغر سے نکل ہی جائیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں