ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

بدھ، 4 دسمبر، 2013

اعتراف (افسانہ) ۔طلعت زہرہ

سرسبز میدان میں کہیں کہیں درخت موجود تھے ۔ انہی میں سے چند درختوں کی چھاؤں میں ایک دو لوہے کی میزیں اور دس پندرہ کرسیاں رکھی تھیں ۔ کچھ طالبعلم وہاں آن پہنچے تھے اور باقی آتے جا رہے تھے۔ پروفیسر کے آتے ہی سب طالبعلموں کی تیز تیز آوازیں اور شور دھیما پڑ گیا ، وہی موضوعات جن پر وہ باتیں کر رہے تھے ، پروفیسر بھی ان میں شامل ہو گیا لیکن تمام لوگ اُس کی باتیں بہت غور سے سنتے اور کچھ کچھ تو نوٹس بھی لیتے جا رہے تھے ۔ 

باتوں کا لامتناہی سلسلہ اور موضوعات کی تبدیلی جاری تھی ۔ اچانک ایک لڑکے نے پروفیسر سے ایک سوال پوچھا،'' یہ اعتراف کی تاریخی ، مذہبی یا معاشرتی حیثیت کیا ہے ؟" استاد نے طالبعلم کی جانب دیکھا ، منحنی سا لڑکا ،پچکے گال اور بھیگی بھیگی مسیں ۔۔۔۔۔
آئینے میں اُس نے دیکھا ، چہرہ لال ، آنکھیں مست اور مسیں پوری طرح بھیگ چکی تھیں ، اُس نے آخری بوند ٹپکائی اور بے دم ہو کر بان کی چارپائی پر جا گرا۔ اپنے آپ سے ملنے کے لئے اسے کتنی محنت کرنا پڑی تھی ۔وہ اسی حال میں رہنا چاہتا تھا ،دنیا سے دور کہیں اندھیری نگری میں مگر بابا کی آواز نے واپس بلا لیا،" طاہر بیٹا فجر کا وقت ہو گیا ہے نماز پڑھ لے پترا" نماز!کیا نماز میرا گناہ معاف کر دے گی۔
 جتنا انسان قدیم ہے اتنا ہی گناہ و اعتراف بھی ، تو اس کی تاریخی حیثیت کا اندازہ لگانا تو مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے البتہ مسیحی معاشرت میں یہ مذہبی فریضہ کے طور سے ہی لاگو ہے ۔۔۔
 اماں کی آواز اسے کبھی نہ بھلی لگی تھی کہ جب دیکھو کام ہی کہے جاتی تھی ۔ اب بازار سے دال لینے بھی مجھے ہی جانا پڑے گا ۔ بشیرے کی دکان پہ پہنچا تو بشیرا نماز پڑھنے مسجد گیا ہوا تھا ۔ اس کی آٹھ دس سالہ بیٹی گدی سنبھالے بیٹھی تھی۔ طاہر نے ایک ہاتھ سے دال اٹھائی اور دوسرے ہاتھ پہ لڑکی نے بقیہ پیسے ڈال دیئے اور ساتھ ہی اُس کا ہنستا کھیلتا ایک لمحہ بھی چھن سے آن گرا۔ اس نے گبھرا کر مٹھی بند کی اور تقریباً بھاگتا ہوا گھر پہنچا۔دال کی تھیلی اور پیسے باورچی خانے میں گرائے ، ہاتھ زور سے جھٹکا لیکن وہ لمحہ وہیں کہیں چپکا رہ گیا ۔طاہر کو غسلخانے کی راہ لیتے ہی بنی ۔ 
 نگاہیں اٹھیں تو طالبعلم بےتابی سے اپنی بات کے جواب کے مکمل ہونے کا انتظار کر رہا تھا" ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ کہ اعتراف ایک مذہبی فریضہ ہے جس میں گناہ کا اعتراف پادری کے سامنے کیا جاتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ گناہ معاف ہو جائے گا''۔ 
 طاہر کی مسیں دن مین بار بار بھیگ جاتیں۔ یہ اب اس کے اختیار سے باہر ہو گیا تھا۔ نمازیں بھی کم پڑتی جا رہی تھیں وہ بری طرح کنفیوز تھا سو اس نے نمازیں ترک کرنا شروع کر دیں۔ سارا دن جھلنگے پلنگ پہ پڑا آسمان تکا کرتا۔"طاہر" کسی نے اسے باہر سے پکارا۔ یہ نومان تھا ۔ طاہر اس کے ساتھ ہو لیا ۔ وہ دونوں باتیں کرتے چلتے چلتے پہاڑوں کی جانب جا نکلے ۔ اِس عمر میں انہیں نئی نئی چیزوں کی تلاش اور ان کے بارے جانکاری میں بہت مزا ملتا تھا۔ کبھی کوئی نیا پودا تو کبھی کوئی نئی قسم کا پتھر، کوئی کیڑا یا کوئی نیا راستہ، ان کی یہ جستجو کہیں اندر ہی اندر پورا ہونے کے احساس کو جِلا بخشتی ۔ کوئی عورت ندی سے پانی بھرنے کو مٹکا سر پہ اٹھائے دور سے بھی گذر جاتی تو دونوں ایک دوسرے کی جانب یوں دیکھتے جیسے انہوں نے ایک دوسرے کو چوری کرتے ہوئے موقع واردات پہ دھر لیا ہو یا دھر لئے گئے ہوں پھر وہ ہنس دیتے۔دھیرے دھیرے یہ کھوج، یہ پورے ہونے کا جتن، یہ پا کر کھوجنے کا من، ان مین اس قدر سرایت کر گیا کہ ایک دن وہ ایک دوسرے سے جا ملے۔پہاڑون کی ٹھوٹھیاں ہوتین یا دہانے سب ان کے سرچشموں کی آمجگاہ بن گئے ۔ ان کی مسیں اپنی ہی آبیاری کرتے کرتے بھرنے لگیں ۔گھر داخل ہوتے تو جھاڑو دیتی رشیدن سے جا ٹکراتے، ٹھوکر کھاتے پھر سنبھلتے تو دماغ جھن جھن کر اٹھتا۔ یہ کیسا معاشرہ ہے، کون سا دین ہے، کیسی قدرت ہے، ہم کون ہیں ایسا کیوں ہے ، مذہب کیوں اجازت نہین دیتا، قدرت کیوں اکساتی ہے، اور معاشرہ؛ اِس میں تو سب موجود ہے ظاہر یا خفیہ۔۔۔۔۔۔۔
 ۔ " ہم زندگی میں کتنی بار اعترافِ گناہ کر سکتے ہیں " طالبعلم نے پوچھا اور استاد یہ سوچ رہا تھا کہ آخر گناہ ہے کیا؟
 بھری بھری مونچھوں میں اب وہ ایک دلنشین نوجوان دکھائی دیتا تھا۔ محلے کی لڑکیاں اسے دیکھتے ہی پردے کی اوٹ لے لیتیں وہی لڑکیاں جن کو دیکھ کر اس نے ہزاروں بار اپنے گھر کی نالیوں کو دھویا تھا یا اپنے دوست کا سہارا لیا۔ ہر بار وہ اعترافِ گناہ کرتا ، معافی کا خواستگار ہوتا، لیکن اگلی بار پھر وہی بے اختیاری ، وہی بے بسی۔کہاں ہے وہ کس میں پوشیدہ ہے ، کس میں اس کی کاملیت ہے ، یہاں تک پہنچنے کے لئے گناہوں کی کہکشاں ، ستاروں کی اوج تک پہنچنے کے لئے اِس موج پہ بہنا گناہ، اس کی معافی اور معافی کے بعد اگلی لہر کے دوش پہ سوار ۔۔۔یہ لامتناہی سلسلہ ِ گناہ ۔۔۔۔کیا یہ گناہ ہے بھی یا نہیں؟
 ۔"گناہ تو تم جب کرتے ہو میرے بچے " استاد گویا ہوا" جب تم کسی پہ زبردستی کرو، اس کے من کے خلاف اس کو ذہنی ،جسمانی یا روحانی چوٹ پہنچاو۔ اس کے لئے معاشرہ، اور مذہب دونوں میں سزا موجود ہے اور اگر اس سزا سے بچ بھی جاو تو مکافاتِ عمل (قانونِ قدرت)سے نہیں بچ پاو گے" ۔
 آج اس نے نہا دھو کر شیو بنائی ، نیا جوڑا پہنا اور نومان کے ساتھ حویلی جا پہنچا۔ تین چار دوست پہلے سے ہی وہاں موجود تھے ۔ شام حسین بنانے کے سارے انتظامات مکمل تھے ۔ محفل عروج پہ تھی سب نے گلاسوں میں بھری آگ اپنے اندر انڈیلی ۔ اور اپنی ہی لگائی آگ کو ٹھنڈے جسم سے باری باری بجھاتے رہے حتی کہ سب برف ہو گیا۔اُس معصوم کا شور حویلی کی دیواروں کی ریخوں میں باآسانی سما گیا۔ اُسے "باحفاظت" گھر پہنچا دیا گیا ۔ صبح آنکھ کھلی تو تنہائی اور احساسِ گناہ کے سوا سب ساتھ چھوڑ کر جا چکے تھے۔۔"اعتراف" ہاں "اعترافِ گناہ" سے یہ "احساسِ گناہ" کا عفریت بھی ساتھ چھوڑ دے گا ۔چرچ میں کافی لوگ موجود تھے ۔ طاہر سب کے جانے کا انتظار کرتا رہا ۔ پادری نے جالی کے پیچھے سے اس کے دل کا تمام حال سنا۔ اس کو نیک ہدایات کیں اور بخشے جانے کی خوشخبری سنا کر رخصت کیا۔ اب وہ آزاد تھا۔ماں نے اپنے گھبرو جوان کے لئے گاوں کی خوبصورت لڑکی منتخب کی ۔ شادی مذہبی رسم کا نام، معاشرتی رواج کی ادائیگی اور قانون کی پابندی ہے۔ اس نے تمام کا پالن کیا۔ وہ جو گاوں کے نمبردار کا دوست ، شہر سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اسی گاوں میں سکول کالج کھولنے پر معمور ہو چکا تھا ۔ اپنی حویلی میں آج اپنے حجلہ عروسی میں لٹکتی پھولوں کی لڑیوں کی جالی کے پیچھے چھپی اپنی شریکِ حیات سے ملنے کا متمنی تھا۔ وہ شریک ِ حیات جو کبھی طاہر کو ایسی نئی کونپل دکھائی دیتی جو انہوں نے پہاڑوں کے دامن میں دریافت کیں تھیں تو کبھی چمکیلی ننھی منی مچھلیاں جو پانی میں وہ پکڑتے پکڑتے ہار جاتے تھے۔اسی کھوج مین اس نے اپنی زندگی گزاری تھی ، اس کی جستجو ،اور تلاش آج ختم ہونے والی تھی ، وہ ایک نئے سفر کا راہی تھا۔ آج کے بعد وہ اپنے کو پا لینے کی منزل سے نزدیک ہوتا جائے گا، اس کی بے تابی بڑھتی جا رہی تھی ، اس نے رومان پرور انداز سے پھولوں کی لڑیوں سے بنے جالی نما پردےسے اندر جھانکا اور ۔۔۔۔یکلخت حویلی کی دیواروں کی ریخیں پھٹ پڑیں، چیخوں کی صدائیں آزاد ہو کر بلند سے بلند تر ہوتی اس کے کانوں کے پردوں میں چھپنے لگیں ۔اسے لگا کہ جیسے کوئی اس کے اپنے ہی جسم کی دھجیاں بکھیر رہا ہے ۔

1 تبصرہ:

  1. طلعت زھرا کا یہ افسانہ تہہ دار ہونے میں اپنا ثانی شايد نہیں رکھتا یا یہ لکھنا میری کم علمی کی نشاندھی کرتا ہے-مگر اس افسانے میں زھراء نے انسان کے اندر کی کشمکش جو جنسیت اور اس کے تقاضوں اور کسک و اکساہٹ کو پھر گناہ اور ٹیبو قرار دئے جانے کا سوال بھی کم دلچسپ نہیں ہے-اعتراف واقعی ایک اچھا افسانہ ہے-

    جواب دیںحذف کریں