ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

اتوار، 15 دسمبر، 2013

غالب اور گلزار کی جمالیاتی روایات کی توسیع۔واصف سجاد

واصف سجاد،دبستانِ ساہیوال کا وہ شاعر ہے جو تعلیم تو انگریزی زبان میں دیتا ہے مگر شعر اردو میں کہتاہے اوربے ساختہ پن میں کہتا ہے۔
مرا وجود چمکتا ہے اس میں حیرت کیا
یہ چند روز رہا ہے ترے  خیال کے ساتھ
غالب کے شعر سے ماخذِ، سخن کیا کہہ نہیں سکتے،، کے نام سے اپنے پہلے مجموعہ، کلام کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ڈاکٹر اجمل نیازی کے خیال
 میں واصف سجاد کی شاعری کسی نظر نہ آنے والے محبوب کے ساتھ ہم سخنی کا  حاصل ہے اور ساتھ کے ساتھ 

لاحاصلی بھی ہے، اس حاصل اور لاحاصلی کی کشمکش نے اسے شاعر بنا دیا،وہ اپنے اندر کسی بستی کی تلاش میں ہے جہاں وہ ہجرت کر سکے۔ ابھی وہ کسی ہجر کے جہاں میں ہے۔وہ سوچتا ہے اور جانتا ہے کی ہجر اور ہجرت میں کیا فرق ہے۔وہ انوکھا درویش شاعر ہے۔ لوگ تو سوچ کر بولتے ہیں مگر وہ سوچتا  تو ہے مگر بولتا نہیں ہے جب کہ  اسے سب خبر ہے، وہ باخبر سے زیادہ اہلِ خبر میں سے ہے اور دل کی خبر دینے کے لئے شاعری سے بڑھ کر کوئی سلیقہ نہیں ہے۔
درویش کو سب خبر ہے واصف
کچھ سوچ کے بولتا نہیں ہے
لیکن کیا کسی ایک شعر پر واصف سجاد کی پوری شاعری کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے؟ ویسے تو کئی شاعر ایک ایک شعر کی بنا پر زندہ ہیں جیسا کہ واصف کے شہر ساہیوال میں مقیم معروف شاعرہ بسمل صابری اپنے اس شعر کی بنا پر اردو شاعری میں زندہ ہیں۔
وہ اشک بن کے میری چشمِ تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے
ہم کسی دوسرے کے بیان کو اپنی تحریر کے اثبات میں پیش نہیں کرتے اور آج بھی نہیں کر رہے لیکن کیا کریں کہ درویش کی صفات  اور باخبر ہونے کی صفت دو مختلف ہستیوں سے منسوب ہیں،باخبر ہونے کی صفت صرف ہر چیز کو تخلیق کرنے والے سے منسوب ہے اسے کسی بھی درویش سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ پھر واصف  سجادنے یہ دعویٰ کیا بھی نہیں ہے۔ واصف اور درویش دو مختلف شخصیات ہیں انہیں یکجا کرنا اچھا نہیں ہے اور پھر واصف سجاد کا شعری افق اس سے کہیں وسیع ہے جتنا ڈاکٹر اجمل نیازی نے اندازہ لگایا ہے۔اس کا فلسفہ ہجر اور ہجرت کا فلسفہ نہیں ہے کیونکہ وہ تو کہہ رہا ہے:
کچھ سمجھ آتا نہیں کیسے ہیں دونوں ساتھ ساتھ
جسم کے اپنے تقاضے، روح کی اپنی طلب
اور درویش کی تو دنیا ہی کوئی اور ہے۔ انسانی جبلت اور روح کی طلب کی یکجائی، یہ کسی اور ہی دنیا کی سیر ہے۔ یہ فکر و فن کی نئی جہت ہے، کلاسیکی کہانیوں میں دونوں سمتیں جھلک دکھاتی ہیں انسانی جبلت بھی اور روح کی طلب بھی،عشق کے نیارے یہ رنگ پنجاب کے انہی علاقوں کی دین ہیں،راوی کے اس پار یا راوی کے ادھر لیکن مٹی کی خوشبو اور پنجاب کی ہریالی عشق کو کئی رنگ دے گئی ہے۔ یس میں  نہ ہجر ہے نہ ہجرت۔
دل کو ہے شوقِ گوشہ نشینی بہت، مگر
آنکھیں یہ کہہ رہی ہیں تماشا تلاش کر
واصف سجاد نے،،دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گیئں،، میں دل کی باتیں کرتے ہوئے لکھا ہے کہ گھر میں شاعری کی ایک ہی کتاب میسر آئی اور وہ تھی دیوانِ غالب جسے شروع سے آخر تک پڑھ ڈالا اس وقت سمجھ تو خیر کیا آنی تھی لیکن شعر کی لگن اور بڑھ گئی، آنچ کچھ اور تیز ہو گئی۔ آثارِ جنوں غزلوں کی صورت رقم ہوتے رہے۔اب تک یہ کام بغیر رہنمائی کے چل رہا تھا اور جب جنوں کو  باشعور کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس ہوئی تو میں اور برادرم علی رضا معروف شاعر سید جعفر شیرازی کی رہائش گاہ فرید ٹا ون پہنچے(مجید امجد کی رہائش گاہ بھی وہیں تھی،یہ ہمارا اضافہ ہے)ٰاور ان سے اصلاح لینے کی خواہش کا اظہار کیا جسے شرف حاصل ہوا اور یوں باقاعدہ اصلاحِ سخن شروع ہوئی،شہر کے بزرگ شعر ا بشیر احمد بشیر،گوہر ہوشیار پوری،ناصر شہزاد، محمود علی محمود۔ ڈاکٹر کاظم بخاری اور یاسین قدرت سے ملاقاتیں رہیں،ان میں بطور خاص بشیر احمد بشیر کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ شاگرد میں بے شک جعفر شیرازی کا تھا جو بہت خوبصورت غزل لکھتے تھے  پھر بھی معائب و محاسن پر بشیر احمد بشیر کی عالمانہ گفتگو سے فنِ شعر کی باریکیوں سے آشنائی ہوئی وہ انہی کی فیض رسانی تھی۔ گوہر ہوشیار پوری نہایت سادہ طبعیت،معصوم فطرت اور انسان دوست شخصیت تھے، دو مصرعوں میں دریائے معانی باندھنے کا فن ان پر ختم تھا۔ واصف سجاد نے دوسرے شعراٗ کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا ہے لیکن  ہمارا اس وقت  شعری ممجموعے،، سخن کیا کہہ نہیں سکتے،، کے حوالے سے واصف کی گفتگو تحریر کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ یہ جائزہ لیا جا سکے کے واصف پر غالب کے علاوہ کس کس کے اثرات نظر آتے ہیں، لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ  واصف نے کسی کے بھی اثرات قبول نہیں کئے اس کی شاعری کی پختگی میں غالب اور بشیر احمد بشیر کا ہاتھ ہے لیکن واصف ان کی  بھی شاعری کے رنگ میں رنگا ہوا نظر نہیں آتا۔اگرچہ اس نے اس بات کا اعتراف تو نہیں کیا لیکن بعض جگہ اس کی شاعری میں گوہر ہوشیار پوری کے انداز کی جھلک نظر آتی ہے۔گوہر ہوشیار پوری کی مانند واصف سجاد کی اصل پہچان اس کی چھوٹی بحر کی غزلیں ہیں۔
چہرے سے عیاں ہے سارا قصہ
کیوں کوئی سوال کر رہے ہو
تم سوچ کی دسترس میں آ کر
ذہنوں کو نہال کر رہے ہو
واصف سجاد کی شاعری میں عشق کی مستی ہے،وہ محبت کا شاعر ہے اس کا ہر ہر جذبہ محبت سے عبارت ہے۔
اس کو مری خبر نہ ہو،دل تو یہ مانتا نہیں 
وہ تو مرا وجود ہے وہ تو ہے میری ذات میں 
عہدِ فراق عارضی،دورِوصال عارضی
عشق کی لذتیں سبھی، عشق کی کلفتیں سبھی
ہم پہ ہوئی ہیں آئنہ ہجر کی ایک رات میں 
لباسِ سرخروئی میں ہے واصف عشق اب تک
ہوس کا ہر لبادہ چاک ہوتا جا رہا ہے
یا پھر واصف سجاد کہتا ہے: 
ترا غرور بجا ہے جمالِ یار تجھے
مری نگاہ کی زیبائیاں میسر ہیں 
واصف سجاد  اردو شاعری کی سلطنت میں ایک نئے  دور کا آغاز ہے اورہمارا ذاتی خیال ہے کہ وہ غالب اور گلزار کی جمالیاتی روایات کی
 توسیع بھی ہے۔واصف سجاد کی غزل جدید اور قدیم روایات کا امتزاج ہے۔ اور  واصف کے اس شعر کے ساتھ سخن کہہ نہیں سکتے پر بات ختم کرتے ہیں:
میری خواہش تھی غم کی روداد سناتا سب کو

کیا معلوم تھا شہر کا شہر ہی محوِ خواب ملے گا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں