غموں سے پرُانی شناسائیاں ہیں
مری ہمنوا میری رسوائیاں ہیں
پھر آئیں بدن ٹوٹنے کی صدائیں
اُداسی کے موسم کی انگڑائیاں ہیں
میں خاموشیوں سے ہوں محوِ تکلم
مری ہم سخن میری تنہائیاں ہیں
ہوا رونما کون نورِ مجسم
تصور میں یہ کس کی پرچھائیاں ہیں
یہاں ڈوب کر کون اُبھرا ہے ابتک
یہ عشق و محبت کی گہرائیاں ہیں
اُٹھالے کوئی آج ہاتھوں میں پتھر
سرِ آب کتنی جمی کائیاں ہیں
تیرے چہرے کی نازؔ ہیں یہ خراشیں
یا آئینے کے رُخ پہ ہی چھائیاں ہیں
Idara Takhliqaat ka Behad Mamnon hon .....
جواب دیںحذف کریں