ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

منگل، 3 دسمبر، 2013

سامعہ ناصر ملک ۔اطہر جعفری

شاعری کا آغاز کب ہوا ؟کس نے کیا ؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔ کچھ قدیم مخطوطوں سے بس اتنا ہی پتا چلتا ہے کہ انسان نے جب لکھنا شروع کیا تو شاعری بھی لکھی گئی لیکن وہ شاعری جو کی تو گئی مگر لکھی نہ جا سکی۔ اس کے آغاز کی کچھ خبرنہیں۔البتہ قدیم غاروں کی دیواروں پر پائے جانے والے نقوش یہ بتاتے ہیں کہ انسان نے جب جب کچھ کہنا چاہا، اپنے محسوسات کے اظہار کیلئے اس نے کبھی نقوش کا سہارا لیا، کبھی اصنام گری کی اور کبھی کچھ نہ کچھ تحر یر کیا۔کسی نہ کسی پیرائے میں اپنے محسوسات کا اظہار انسان کی جبلت میں ہے۔  

دنیا میں بے شمار زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے ہمارے بر صغیر کی معروف ترین بلکہ شاید سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبان اردو ہے۔ اردو شاعری اپنی پوری آن بان اور شان کے ساتھ دنیا بھر میں جہاں جہاں اردو زبان پڑھنے والے موجود ہیں، وہاں وہاں لکھی اور پڑھی جاتی ہے۔ اردو شاعری کی مقبول ترین صنف غزل ہے اور غزل کا پہلا شاعر سنائی کو مانا جاتا ہے جس نے فارسی میں غزل گوئی کا آغاز کیا تھا۔ اردو میں ولی دکنی، میر تقی میر، غالب، فراق، یگانہ چنگیزی، ناصر کاظمی، پروین شاکر، احمد فراز، ظفر اقبال اور بہت سے دوسرے شعراءِ کرام نے غزل گوئی کو بامِ عروج تک پہنچایا۔ دورِ حاضر میں بھی بے شمار شعراءِ کرام غزل لکھنے میں مصروف ہیں۔ اچھی غزل لکھنا جوئے شیرنکالنے کے مترادف ہوتا ہے اس لیے بہت کم شاعر اعلیٰ پائے کی غزل لکھ پاتے ہیں۔شاعری محض الفاظ کو کسی خیال کے تحت کسی بحر میں باندھنے کا نام نہیں ہے بلکہ جس زبان میں شاعری کی جارہی ہے اس کی حفاظت اور اس کو آگے بڑھانا بھی شاعر ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
غزل گوئی کے حوالے سے عہدِ حا ضر کی ایک توانا آواز،چوک اعظم ،پنجاب کی ایک بے چین روح اردو زبان کی ترویج و ترقی کیلئے کوشاں، ایک درویش شاعر ناصر ملک کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔حال ہی میں شائع ہونے والاان کا شعری مجموعہ ’’سامعہ ‘‘ انکے بارے میں میری رائے کی ببانگ دہل تائید کرتا ہوا نظر آتا ہے۔سامعہ کون ہے ، کہاں ہے، ہے بھی کہ نہیں؟۔۔۔ یہ تو میں نہیں جانتا لیکن اتنا جانتا ہوں کہ خیالی پیکر تراشنا کسی بھی تخلیق کار کیلئے بہت ضروری ہوتا ہے کہ وہی اس کو مہمیز کرتا ہے ، مجبور کرتا ہے کہ وہ کچھ تخلیق کرے۔ اب جس قدر اس خیالی پیکر کے نقوش واضح ہوتے ہیں ،اس قدر ہی تخلیق جاندار اور حقیقت کے قریب ہوتی ہے۔ اُس حقیقت کے جو اس پیکر کی آنکھوں سے نظر آرہی ہوتی ہے اور جو وہ پیکر محسوس کر رہا ہوتا ہے۔ 
ناصر ملک لفظ کی تلاش میں ہمیشہ متحرک رہتے ہیں اور جب مناسب لفظ مل جائے تو وہ اسے اس وقت تک نہیں باندھتے جب تک اس کا صحیح تلفظ معلوم نہ کرلیں۔ اس کے لیے وہ دوستوں سے رجوع کرنے میں کبھی نہیں ہچکچاتے اور ہمہ وقت سیکھنے کیلئے تیار رہتے ہیں ۔ وہ اپنے آپ کو طالبعلم سمجھتے ہیں اور اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں۔ ناصر ملک کی شاعرانہ صلاحیتوں پر بات کرنے سے پہلے بس اک نظر ان کی نثر نگاری پر ڈالتے ہیں اور دیکھئے! کتنی کھری شخصیت ہے ان کی۔ دیکھئے۔۔۔
’’بارہا سوچا کہ مشاعرے میں شرکت کرنا و قت کا ضیاع ہے۔ ارادہ ہوا کہ آئندہ اس بے فیض رتجگے کے قریب نہیں جاؤں گا،تک بندوں کی صحبت سے بچوں گا ،جھاڑ جھنکار میں ذہن زخمی نہیں کروں گا مگر جب کوئی دوست مصر ہوجاتا ہے تو اسے انکار نہیں کر پاتا۔ مصمم ارادے کی فصیل میں شگاف پڑ جاتا ہے ۔۔۔اور پھر ہا ر جاتا ہوں۔۔۔‘‘
مزید لکھتے ہیں۔۔۔’’آج بھی ایسی ہی بے فیض ریاضت کے نام اپنا رتجگا کر آیا۔ روشنیوں کی چکا چوند، احباب کا ہجوم، سرگوشیاں، الجھی ا لجھی نظریں۔۔۔ایسے میں ایک ہم عصر اپنی غزل پیش کرنے اسٹیج پر گیا۔ غزل کے پہلے مصرعے نے چونکا دیا۔ وہ کسی مروجہ ، کم مستعمل یا غیر مستعمل بحر کا مصرعہ نہیں تھا بلکہ سرے سے غیرموزوں کلام کا حصہ تھا۔ دوسرے مصرعے نے چودہ طبق روشن کردیے۔ مطلع میں نہ ردیف تھی نہ قافیہ، نہ د ونوں مصرعے ہم وزن۔۔۔ غزل تمام ہوئی۔اس میں سننے، سمجھنے اور پرکھنے کیلئے کچھ بھی نہیں تھا مگر....حیرت کا دوسرا جھٹکا بڑا جان لیو ا تھا جب پورا ہال واہ، واہ، مکرر اور داد و تحسین کے ڈونگروں سے گونج اٹھا۔۔۔‘‘
یہ چند سطریں لکھنا کس قدر دشوا ر کام ہے، شاعر حضرات بخوبی سمجھتے ہیں مگر ناصر ملک نے لکھ دیں۔ ان چند سطور میں دراصل ناصر ملک نے نوحہ لکھا ہے عہدِ حاضر کی شاعری کا ۔ ان سطور سے صاف ظاہر ہے ان کا شاعری سے محبت اور خلو ص۔ اس جرا تِ رندانہ پر انہیں داد دینی پڑتی ہے کہ یہ ان کا حق ہے۔ 
ایک اور نثر پار ہ ملاحظہ کیجئے اس درویش دانشو ر کا۔۔۔
’’ افسوس۔۔۔آمریت، جمہوریت یا مطلق العنانیت کے بجائے معاشرتی بگاڑ کی حقیقی ذمہ داری کیپٹل ازم(سرمایہ دارانہ نظام) پر عائد ہوتی ہے جس پر نہ کوئی سیاست دان انگلی اٹھاتا ہے، نہ قلم کا ر، نہ مذہبی رہنما او ر نہ سماجی کارکن.........کہیں ان سب مکاتب فکر نے غیر اعلانیہ اتحا د تو نہیں کر رکھا؟‘‘
اب آئیے! ناصر ملک کے شعری محاسن پر اک نظر ڈالتے ہیں۔ اک شام جب میں گھر پہنچا تو میری میز پر ایک لفافہ پڑا تھا۔ مجھے مہربان دوست ادبی جرائد اور ا پنی نئی کتب بھیجتے رہتے ہیں۔ میں سمجھا کہ کو ئی نئی کتاب یا رسالہ آیا ہوگا۔ یہ سوچ کر کہ ابھی فا رغ ہوکر د یکھتا ہوں ، میں کسی کا م کے سلسلے میں کہیں چلا گیا۔ رات دیر سے واپسی ہوئی، صبحُ ُ پھر دفتر چلا گیا، اور اس روز ایک اور ادبی جریدہ بھی آگیاجسے میں نے پہلے لفافے کے اوپر رکھ دیا گیا۔ رات کو بس یہ دیکھنے کی خاطر کہ ڈاک میں کیا ہے، پہلے رسالے کی ورق گردانی کی تو رات کافی بیت چکی تھی ۔ مزید پڑھنے کی ہمت نہیں تھی تو رسالہ رکھ کر ایسے ہی کہ دیکھوں دوسرے لفافے میں کیا ہے، کھولا تو ناصر ملک کی ’’سامعہ‘‘ کو پایا اور جیسے ہی کتاب کھولی تو نظر اس شعر پر پڑی۔
عمر بھر دیدہءِ نمناک سے کھیلی
زندگی موجہ ءِ ادراک سے کھیلی
اور پھر کیسی رات او ر کہاں کی نیند۔ میں ناصر ملک کی ’سامعہ‘ میں کھو گیا۔۔۔ ( مجھے امید ہے ملک صاحب برا نہیں مانیں گے۔ کیوں ملک صاحب؟)
میں نے سیکھا ہے زمانے سے یہی منفی رویہ
سر پہ جو سایہ فگن ہے وہ شجر کاٹ رہا ہوں
سیف صاحب کا لازوال شعر ہے۔۔۔ یوں تو دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں۔۔۔اس شعر کے اندازِ بیاں نے ا س مفہوم کو ایک نیا روپ بخشا ہے۔
میں نے خود اپنے تراشے ہیں خدوخال یہاں
میں کہاں بخت کے ہاتھوں سے نکھارا گیا ہوں
*
بکھرے ہوئے حروف کو سمیٹتے ہوئے
اک شخص کا خلوص نظم ہو گیا تو کیا
*
میں اپنے ارادوں میں تو ناکام ہوا ہوں
ہاں ! رات کی آنکھوں کو سحر دے کے چلا ہوں
کیا کہنے۔
سلگتی ریت پر خیمے لگائیں گے، یہی ضد ہے
اگر مقتل بلائے گا تو جائیں گے یہی ضد ہے
میں خون بہا شہر سے لے لوں گا پلٹ کر
نیزے پہ سجایا ہوا سر دیکھ تو لوں میں
مندرجہ بالا اشعار میں کربلا سے شام تک کا سفر کس خوبصورتی سے طے کیا گیا ہے، کما ل ہے۔
پھر لوٹنا ممکن جو دکھائی نہیں دیتا
اک با ر یہ اجڑا ہوا گھر دیکھ تو لوں میں
کس قدر عمدہ شعر ہے۔۔۔اور ا س شعر کو دیکھیے! کمال ہے جناب۔
زندگی موت کو اٹھا لائی
کتنی اکتا گئی ہے اب مجھ سے
آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ میں ابھی تک کتاب کی ابتدائی غزلوں کے اشعار ہی لکھ رہا ہوں۔ کیا کیا جائے؟ کس غزل کو نظر انداز کیاجائے؟ کس شعر کو چھوڑ ا جائے؟۔۔۔ ناصر ملک نے مجھے سخت مشکل سے دوچار کر دیا ہے۔ اب اگر میں سامعہ کے عمدہ اشعار نقل کرنے لگوں تو اک دفتر درکار ہوگااور پھر اس مضمون کی طوالت کے باعث اسے کوئی نہیں پڑھے گا۔ بس آخری بات۔۔۔عام طور پر یہ سمجھاجاتا ہے کہ کسی غزل میں اگر ایک شعر اچھا ہے تو وہ غزل بھی اچھی ہے اور اگر کسی شعری مجموعے میں ا یک غزل عمدہ ہے تو وہ کتاب بھی کامیاب کتاب تصور ہوتی ہے۔ اب اگر اس پیمانے کی روشنی میں ’سامعہ‘ کا معیار طے کرنے کی کوشش کی جائے تو یہاں تو ا ک اک غزل میں ایک سے بڑھ کر ایک شعر موجود ہے اور غزلیں بھی خوب سے خوب تر۔
اداس اور نرم لہجے کا شاعر جب کچھ کہتا ہے تو ڈوب کر کہتا ہے اور اگر اس کا قاری اسکی شاعری کا سرسری مطالعہ نہ کر رہا ہو تو وہ بھی پڑھتے ہوئے کہیں کھو جاتا ہے۔ سا دہ بیانی بہت مشکل کام ہے، بہت ہی مشکل ۔۔۔اور ساد ہ بیانی ناصر ملک کا خاصہ ہے ۔شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ خو د سادگی پسند ہے اور سادگی ہی اسکی زندگی کا شعارہے۔
’سامعہ‘ کا مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ ناصر ملک کس پائے کا شاعر ہے اور اس کا یہ فنی سفر کن منزلوں کی طرف گامزن ہے۔ جیسا کہ میں نے آغاز میں ا شارہ کیا تھا کہ وہ لفظ کی حرمت کا کس قدر خیال رکھتے ہیں۔ خیال پر ان کی گرفت بھی قابل ستائش ہے، بنت ، نشست وبرخاست، برجستگی اور سادہ بیانی بھی دیدنی ہے ناصر ملک کی شاعری میں۔ نئے لکھنے والوں سے میں یہ درخواست کروں گا کہ وہ ’سامعہ‘ کا مطالعہ ضرور کریں۔
میں ناصر ملک صا حب کی اس خوبصورت اور کامیاب تخلیق پر ان کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتاہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ کرے زورِ قلم او ر زیادہ ہو۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں