ادبستان اور تخلیقات کے مدیرِاعلیٰ رضاالحق صدیقی کا سفرنامہ،،دیکھا تیرا امریکہ،،بک کارنر،شو روم،بالمقابل اقبال لائبریری،بک سٹریٹ جہلم پاکستان نے شائع کی ہے،جسے bookcornershow room@gmail.comپر میل کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے

تازہ تر ین


اردو کے پہلے لائیو ویب ٹی وی ،،ادبستان،،کے فیس بک پیج کو لائیک کر کے ادب کے فروغ میں ہماری مدد کریں۔ادبستان گذشتہ پانچ سال سے نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔https://www.facebook.com/adbistan


ADBISTAN TV

پیر، 30 دسمبر، 2013

کوئی منصوبہ ساز تو محب وطن ہوتا

میں نے اُسے انٹر نیٹ پر پاکستان کی ان گنت تصاویر دکھائیں۔ اسے ہر عہدِ 
اقتدار میں ہونے والی ترقی کے نقشے دکھائے۔ اعداد و شمار بتائے مگر اس کم بخت نے میری کسی بھی دلیل کو نہ مانا۔ وہ اپنے موقف پر قائم تھا کہ پاکستان کو ابھی تک کوئی بھی مخلص حکمران میسر نہیں آیا۔ میں نے لیاقت علی خان سے نواز شریف تک تمام وزرائے اعظم ، جملہ صدورِ مملکت اور ان کے کارہائے نمایاں گنائے مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ میں نے اکتا کر کہا ، ’’میاں! کیا تمہارے پاس بھی کوئی دلیل ہے اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کیلئے؟‘‘
اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ ابھری اور مجھے اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کر کے اٹھ کھڑا ہوا۔ پانچ دس منٹ بعد ہم ایک اجڑے ہوئے گھر کے باہر کھڑے تھے۔ اس نے سالخوردہ دروازے کی طرف اشارہ کر کے کہا، ’’اس گھر کو غور سے دیکھو۔ تیس سال پہلے بنا تھا۔ تم یہیں کے رہنے والے ہو۔ جانتے ہو کہ اس گھر میں گزشتہ تیس سالوں میں کتنے خاندان مقیم ہوئے؟‘‘


وہ درست کہہ رہا تھا۔ اس گھر میں کم و بیش گیارہ خاندان مقیم ہوئے تھے۔ میں نے بتایا تو وہ سر ہلا کر بولا، ’’اس گھر کی حالت دیکھو اور بتاؤ کہ یہاں رہنے والا کون اس گھر سے مخلص تھا؟‘‘
میں نے ایک نظر احتیاط سے اس اجڑے ہوئے گھر کو دیکھا اور کہا، ’’میاں! اس گھر کو دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ یہاں جو بھی آیا، وہ پہلے سے بڑھ کر کاہل، نکما اور غیر مخلص تھا۔‘‘
اس کے لبوں کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی۔ بولا، ’’یہی تو میں تمہیں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اس ملک کو دیکھو۔ بتاؤ، کون سا حکمران مخلص تھا؟‘‘
میں نے ایک طویل سانس سینے میں اتاری اور اپنے موقف کے بھونڈے پن کو تسلیم کرتے ہوئے واپسی کی راہ لی۔ وہ درست کہہ رہا تھا۔ اگر پاکستان کو مخلص رہبر نصیب ہوئے ہوتے تو اس کی کم از کم یہ حالت نہ ہوتی جو اس وقت دکھائی دے رہی ہے۔
جمہوری اور غیر جمہوری حکومتوں کے کارناموں کی اگر فہرست بنائی جائے تو بجا طور پر غیر جمہوری حکمرانوں کا نامہ اعمال بھاری نظر آتا ہے۔ اب تک جتنے بھی میگا پراجیکٹس پایہ تکمیل کو پہنچے، وہ ڈکٹیٹرز کے ہاتھوں پہنچے۔ جمہوری حکمرانوں کے ہاتھ محض پوائنٹ سکورنگ کیلئے ہی لہراتے رہے۔ مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو جمہوری حکمرانوں نے پراجیکٹس پر کم سرمایہ لگایا جبکہ اس کی پروجیکشن پر خطیر رقوم صرف کیں۔ بدقسمتی سے ابھی تک کسی بھی جمہور زادے کو عقل مند اور ذمہ دار منصوبہ ساز ہی نہیں مل سکا۔ ہر منصوبہ ساز نے عوامی نمائندوں کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھا اور عوامی ضروریات کو یکسر نظر انداز کیا جس کی وجہ سے معاشرے کے دو فیصد لوگ مستفید ہوئے جبکہ اٹھانوے فیصد محض ڈگڈگی بجاتے رہے۔
کوئی بھی ذمہ دار شخص راشن، پلاٹوں، قرضوں، روٹیوں، لیب ٹاپس، انرجی سیورز، انڈسٹریز، بار دانوں، پرمٹوں اور لائسنسوں کی بندر بانٹ کو قومی پالیسی قرار نہیں دے سکتا۔ گھڑی کی سوئیوں کو آگے پیچھے کرنے، سرِ شام بازار بند کرانے، ون ڈش عائد کرنے، جگہ جگہ سی این جی پمپس لگانے اور پبلک ٹرانسپورٹ کے انجن بدلنے کو پالیسی کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ نیشنلائزیشن کے نام پر نجی اداروں پر سرکاری بورڈ آویزاں کرنے اور پھر انہی اداروں کو ڈی نیشنلائز کرنے کے عمل کو صحت مند کبھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایک حکمران پورے ملک کا سرمایہ ایک جگہ صرف کر کے دیو ہیکل ملز تعمیر کرتا ہے، دوسرے اسے بیچنے کیلئے اور اس کی رگوں سے خون چوسنے کیلئے قومی مفادات کا راگ الاپتے ہیں۔ کوئی سرکاری ادارہ دیوالیہ ہونے لگتا ہے تو بجائے اس کا وزن کم کرنے کے، اس کے آڈٹ اور حسنِ انتظام کے نام پر چند اور سیاسی ہرکارے نواز دیے جاتے ہیں جس سے رہی سہی کسر بھی نکل جاتی ہے۔
اگر کسی بھی مخلص اور محب الوطن منصوبہ ساز کی خدمات حاصل کی گئی ہوتیں تو وہ دیو ہیکل انڈسٹریز کی تنصیب کے بجائے مائیکرو پروڈکشن فارمولا پیش کرتا۔ شہروں کے مساوی شوگر ملز لگانے کے بجائے ننھے ننھے یونٹ ہر تین چار گاؤں کی سطح پر لگائے جاتے اور نوجوان اور بے روزگار پڑھے لکھوں کو اس میں شراکت دی جاتی۔ اگر ایک شوگر ملز یونٹ دو لاکھ بوریوں کا پراڈکشن شیڈول رکھتا ہے تو دو ہزار بوریوں والا چھوٹا سا یونٹ گنا پیدا کرنے والے ہر چار دیہاتوں کے درمیان نصب ہو سکتا تھا جس میں لیبر اور ایڈمنسٹریشن مقامی پڑھے لکھوں کو دی جاتی۔ اس سرکاری جائیداد کی انہیں 80 فیصد شراکت دی جاتی جبکہ حکومت بیس فیصد شیئرز اپنے پاس رکھتی۔ اس سے نہ صرف بے روزگار کا عفریت دم توڑتا بلکہ ملک میں کبھی بھی بحرانی کیفیت نہ آتی۔ چند ملز مالکان کا اتحاد پوری قوم کا سرمایہ ہڑپ کر جاتا ہے اور یہ چند مالکان حکومتوں کے نوازے ہوئے افراد ہیں جن کا تحفظ ہر حکومت کو کرنا پڑتا ہے۔
بجائے نوجوانوں کو قرض یا امداد دینے کے، جس گاؤں میں جو جنس بکثرت اگتی ہے، اس سے متعلقہ صنعتی اکائی وہیں نصب کی جا سکتی ہے۔ بڑے بڑے تھرمل پاورز پراجیکٹس کے بجائے چھوٹے چھوٹے پراجیکٹس بنائے جاتے اور ان میں عوام کو شراکت دی جاتی جو نہ صرف اس کی دیکھ بھال کرتے بلکہ ان کی بے روزگاری بھی دور ہو جاتی۔
بیوہ عورتوں کی ہر ماہ امداد کر دینا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ یہ عوام کو بھکاری بنانے کی منظم سازش ہے۔ زکوٰۃ، خواہ اسے کوئی بھی عنوان دے دیا جائے، زکوٰۃ ہی رہتی ہے۔ اس سے کہیں بہتر منصوبہ یہ ہو سکتا تھا کہ ہر شہر میں ایک گارمنٹس فیکٹری نصب کر دی جاتی جس میں بیوہ عورتوں کو شراکتی ملازمت دے دی جاتی۔ اس سے نہ صرف حکومتی سرمایہ محفوظ رہتا بلکہ حکومت کو معقول منافع بھی میسر آتا۔اس طرح سود کی لعنت سے معاشرہ پاک صاف ہو سکتا تھا۔دانش سکولوں کی پر شکوہ عمارات بنا دینا کوئی منصوبہ نہیں۔ یقیناًیہ طریق عوامی حلقوں میں امتیاز پیدا کرنے کی سازش قرار پائے گا۔ سرکاری تحویل میں ہزاروں سکول ایسے ہیں جہاں اسٹاف تو موجود ہے، طلبا نہیں ہیں یا طلبا ہیں مگر اساتذہ دستیاب نہیں ہیں۔ ان سکولوں میں نظم و نسق نام کی کوئی چیز نہیں۔ اربوں روپے کے نئے پراجیکٹ شروع کرنے کے بجائے کیا ان کی اصلاح ضروری عمل نہیں تھا؟
اور کیا سولر لیمپس معاشرے میں پھیلے اندھیرے دور کر چکے ہیں؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں